عالمی یوم ِ خوراک 2019 پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا گیا
اسلام آباد ( فائزہ شاہ کاظمی بیوروچیف) پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل، اسلام آباد کے ذیلی ادارے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز، اسلام آباد میں وزارتِ غذائی و تحقیق، پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل،عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او)، ورلڈ فو ڈ پروگرام (، ڈبلیو ایف پی) اور آکسفام کے اشتراک و معاونت سے عالمی یومِ خوراک 2019کا انعقاد کیا گیا ۔ اس سال عالمی یوم خوراک کا سلوگن ـ”قدم بڑھائو مستقبل بنائو ، صحت مند غذا صحت مند دنیا “تھا
۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے قومی وزارتِ تحفظ خوراک و تحقیق جناب صاحبزادہ محمد محبوب سلطان بطور مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے صدرِ پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کے پیغامات پڑھ کر سنائے ۔ وفاقی وزیر نے اس موقع پر کہا کہ آج کے دن کا مقصد صرف اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے قیام کو منانا ہی نہیں ہے
بلکہ دنیا سے بھوک کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تھیم وزارت کی ذمہ داریوں اور عزم کے عین مطابق ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ ملٹی سیکٹرل اور ملٹی سٹیک ہولڈرز پارٹنر شپس کو مضبوط کر کے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اور یہ سب تبھی ممکن ہے جب ناقص غذا اور دیہی غربت کا خاتمہ اور 2030 کے وژن پر عمل در آمد کیا جائے گا۔
انہوںنے کہا کہ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک زیادہ پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ پھر بھی 800 میلن لوگوں کے پاس کھانے کو خوراک نہیں ہے ۔صحت مند غذا صرف معاشرے کے مخصوص طبقات کے لئے نہیں ہونی چاہیئے ، صحت مند غذا بنیادی انسانی حق ہے لہذا یہ سب کیلئے دستیاب ہونی چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کی پیداوار بڑھانے،
غریب کسانوں کی آمدن بڑھانے ،موسمی تبدیلیوں کے پیش نظر ٹیکنا لوجی کو اپنانے اور غریب گھرانوں کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے سے ہی ہم مستقبل میں خوراک کی قلت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے اہم اقدامات کر رہی ہے
جن میں کسان کے منافع بڑھانے کے لیے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ، کسانوں کے لیے رعایتی قرضہ جات، لائیو سٹاک سیکٹر کی اصلاح، نیشنل واٹر پالیسی کی اپ گریڈیشن شامل ہیں۔ انہوں نے آخر می اس عزم کا اظہار کیا
کہ موجودہ حکومتی اقدامات سے پاکستان میں 2030 تک بھوک کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ ہماری حکومت کی توجہ عوام کے لئے باوقار زندگی کو یقینی بنانا ہے اور اس سلسلے میں وزارت غذائی تحفظ و تحقیق نے وزیر اعظم کی ہدایت پر زراعت کے متعلق مختلف منصوبے شروع کر دیئے ہیں جن میں گندم اور چاول کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس موقع پر مس مینا ڈولائچی، پاکستان میں FAO کی نمائندہ نے کہا کہ بھوک غربت و افلاس اور ناقص غذا کے خاتمے کی جدو جہد میں اتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے ممبر ممالک اس تاریخ کو عالمی یوم خوراک کے طور پر مناتے ہیں ۔ انہوں نے اس بات کو بہت خوش آئند قرار دیا
کہ پاکستان اپنے منتخب کردہ اہداف حاصل کر رہا ہے۔ ملک میں پہلی فوڈ سیفٹی پالیسی بنائی گئی ہے جس کے تحت زراعت میں جدت ، پانی کے وسائل میں اضافہ اور بدلتے موسم کے ساتھ پیداوار کو متاثر ہونے سے بچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ ” دی اسٹیٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر2019 “کے مطابق کاشتکاری سے لے کر اسٹوریج اور ترسیل کے تمام مراحل کے دوران خوراک کا بڑا حصہ تباہ ہوجاتا ہے جس کے سد باب کے لئے نئے طریقے اپناے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے
کہ اسٹوریج کی عدم دستیابی اور کاشت کاری کے ناقص یا پرانے طریقے اپنانے کی وجہ سے خوراک کو غیر معمولی نقصان پہنچتا ہے نیز اگر 2030 تک اگر دنیا کو بھوک اور غذائیت کی کمی سے پاک کرنا ہے تو موسمیاتی تبدیلیوں کے جواب میں خوراک کے نظام کی بہتری کے لئے ضروری اقدامات کرنے میں پیش رفت کر نا ہو گی۔
اس موقع پر سیکرٹری وزارتِ خوراک و تحقیق ڈاکٹر محمد ہاشم پوپلزئی نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ FAO اور دیگر شراکت دار اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیںنیز FAO کی رپورٹ کے مطابق 80% غریب آبادی دیہات میں رہتی ہے جن کا تعلق زراعت سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ FAO مطابق 2050 تک ہمیں اپنی پیداوار کو 60% تک بڑھانا ہو گا۔ انکا کہنا تھا
کہ سبز انقلاب ایک اچھی چیز ہے اور اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زراعت کے مستقبل کے لیے پانی کے وسائل میں اضافہ اور اسکی نظامتِ بہت اہم ہے۔ نیز ہماری مقامی غذائی ضروریات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جب کہ قابل کاشت زمین کو بڑھانے میں ناکامی اور مسلسل پانی کی کمی پیداوار کی صلاحیت کو محدود کر رہی ہیں۔ اس موقع پر فن بار کُرن، کنٹری ڈائریکٹر WFP پاکستان نے کہا
کہ بھوک کو مٹانے کے لیے زراعت کے شعبے میں فنڈنگ ،دیہی زندگی کی ترقی، خالص غذااور سماجی تحفظ کی ضرورت ہو گی۔ جس کو اپنا کر پاکستان میں خوراک کی قلت کے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ چئیرمین پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل ، ڈاکٹر محمد عظیم خان نے کہا کہ یہ دن اس لیے منایا جا رہا ہے
کہ خوراک کے تحفظ کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر نظر ثانی کر کے نہیں مزید بہتر بنایا جا سکے۔ ہمارا وژن یہ ہے کہ فوڈ سیکور پاکستان بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ اکیلے بھوک کا خاتمہ نہیں کر سکتا اس کے لیے حکومتوں ، شہریوں، سول سوسائٹی کے اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر سب کو مل کر اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور جدید طریقے
اپنا کر ہدف کو حاصل کرنے کی جد و جہد جاری رکھنی چاہیے۔ چیئر مین پی اے آر سی نے کہا کہ عالمی یوم خوراک کا بنیا دی مقصد خوراک سے جڑے مسائل کے متعلق لوگوں میں شعور اجاگر کرنا اور ملکی وسائل کو برئوئے کار لاتے ہوئے بھوک غیر معیاری خوراک جیسے درپیش مسائل کے
خاتمے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ملکر ممکنہ حل تلاش کرنا ہے۔ عالمی یوم خوراک کی تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر غلام محمد علی، ڈائریکٹر جنرل ، قومی زرعی تحقیقاتی مرکزاسلام آباد نے عالمی یوم خوراک کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آخر میں تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا