کورونا کیخلاف جنگ میں سندھ کارڈ یا صوبائی کارڈ نہیں چلے گا، شاہ محمودقریشی 88

کورونا کیخلاف جنگ میں سندھ کارڈ یا صوبائی کارڈ نہیں چلے گا، شاہ محمودقریشی

کورونا کیخلاف جنگ میں سندھ کارڈ یا صوبائی کارڈ نہیں چلے گا، شاہ محمودقریشی

اسلام آباد(فائزہ شاہ کاظمی بیورو چیف)قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں کورونا وائرس کے حوالے سے بحث کی گئی اجلاس سے خطاب میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا کورونا وبا کے باعث کرب کا شکار ہے،

گزشتہ دنوں مختلف سیاسی جماعتوں نے مشاورتی بیٹھک کی اورتمام سیاسی جماعتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے۔اپوزیشن کے مطالبے پر مشاورت کے لیے اجلاس منعقد کیا، مشاورت اور تجاویز کے بعد مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ ماہرین متفق ہیں

کہ کورونا کی ویکسین آنے تک مختلف طریقوں سے پھیلاؤ روکنے کی کوشش کی جائے، دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے اتنا بڑا بحران نہیں دیکھا، خیال ہے کہ ویکسین 18 ماہ سے 2 سال تک آئے گی
مزید انکاکہنا تھاکہ 18 ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے، گزشتہ 12 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ہے جبکہ گزشتہ 10 سال پنجاب میں ن لیگ کی حکومت رہی، ہمیں جوخدشات تھے، اگر وہ ہوتے تو سسٹم اب تک تباہ ہوچکا ہوتا لیکن اللہ کا کرم ہےکہ ہمارا صحت کا نظام ناکام نہیں ہوا متفقہ رائے کے ذریعے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا گیا

اور پاکستان نے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ بڑا ردعمل دیا، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) مرتب کی گئی اورتمام اکائیوں کو اس میں نمائندگی دی گئی، 18 ویں ترمیم کو جانتے ہوئے صحت عامہ میں صوبوں کے لیے لچک کا مظاہرہ کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا

کہ ایک تاثر ابھرا کے سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سندھ سے زیادتی کی گئی ہے، سندھ حکومت کو آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ حفاظتی لباس دیے گئے جبکہ حفاظتی ماسک بھی سندھ کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ دیے گئے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی نیک نیتی کے باوجود سندھ میں لاک ڈاؤن کے ثمرات نہیں ملے،

ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا کہا تو مذاق اڑایا گیا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کیا ہے؟ جس پیپلزپارٹی سے وفاق کی خوشبو آتی تھی، آج صوبائی تعصب کی بو آرہی ہے، کورونا کے خلاف جنگ میں سندھ کارڈ یا صوبائی کارڈ نہیں چلے گا۔
لاک ڈائون کے حوالے سےان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن نرم نہ کرتے تو 2 کروڑ سے 7 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے جاتے، اگر اسمارٹ لاک ڈاؤن میں جانوں کا ضیاع زیادہ ہوتا ہے تو نظر ثانی کا اختیار رکھتے ہیں، تمام صوبائی حکومتوں سے مشاورت کرکے لاک ڈاؤن میں نرمی کا عمل شروع کیا گیا،

وفاقی حکومت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور ہماری خواہش ہے کہ جانیں بھی بچ جائیں اور معیشت کا بھی نقصان نہ ہو۔دوران اجلاس ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے ارکان کو ایک ایک نشست کا فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی گئی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان کا کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر سینیٹائزر گیٹ اور ٹمپریچر معلوم کرنے کی مشین لگائی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں