مقبوضہ کشمیر پہلے مشکلات کا شکار تھاکوروناوبا کے باعث صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے،وزیر خارجہ
اسلام آباد(فائزہ شاہ کاظمی بیورو چیف) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں تمام صوبوں کی مشاورت سے جامع حکمت عملی وضع کی ہے‘ اس حوالے سے ارکان پارلیمنٹ کی تجاویز کا خیر مقدم کریں گے
اور قومی امور پر ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں‘ قومی رابطہ کمیٹی میں تمام فیصلے مشاورت سے کئے جاتے ہیں‘ کرونا وبا کے باعث مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے‘ عالمی برادری اور او آئی سی کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں کرونا وباءکی صورتحال پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا
کہ یہ ایک غیر متوقع صورتحال ہے۔ دوسری جنگ کے بعد کرونا وباءکا بحران سب سے بڑا ہے۔ مستحکم معیشتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔ امریکہ‘ اٹلی‘ فرانس سمیت دیگر ممالک کی صورتحال سامنے ہے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک بھی اس آفت کا مقابلہ کر رہا ہے اور کریں گے۔
بحیثیت قوم اس وباءکو شکست دینے میں کامیاب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر کنفیوژن کا شکار نہیں۔ واضح پالیسی ہے۔ قومی حکمت عملی وضع کی ہے۔ سندھ حکومت بھی اس پالیسی کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی مشاورت شامل ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے رکن سندھ اسمبلی بھی ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کی بات کو وزیراعظم اہمیت دیتے ہیں۔ کشمیر اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ ان کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس وباءکا حل لاک ڈاؤن ہے‘ ہرگز نہیں یہ ایک جزو ہے۔ اس کا اصل حل ویکسین ہے جس کی تیاری میں 18 ماہ سے دو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہمیں اس کے پھیلاؤ کو محدود کرنا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اسلام آباد میں روزانہ صبح سے شام تک اس وباءسے متعلق اجلاس کرتے ہیں۔ اس وقت یہ سب سے اہم معاملہ ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے 11 اجلاس ہو چکے ہیں۔
این سی او سی کا روزانہ صبح دو گھنٹے اجلاس ہوتا ہے جس کی صدارت وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کرتے ہیں۔ تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہوتی ہے۔ سب صوبے اپنی سفارشات پیش کرتے ہیں۔ صورتحال کا جائزہ لیا جاتا ہے اور قومی رابطہ کمیٹی کو سفارشات بھیجی جاتی ہیں جہاں حتمی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمنٹ اہم ہے۔ پورے ایس او پیز کے ساتھ قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ ہمیں اجلاس بلانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ اجلاس کا مقصد یہ ہے کہ آپ تجاویز پیش کریں‘ ہمیں قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے اس کا مل کر مقابلہ کیا جاسکتا ہے
۔ سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین ایوان کا اجلاس بلانے کے خلاف ہیں۔ اپوزیشن اپنی صفوں میں فیصلہ کرے وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان کی قیادت اجلاس بلانے کے حوالے سے گومگوں کا شکار تھی۔ چھ اجلاس ہوئے‘ رولز میں ورچوئل اجلاس بلانے کی گنجائش نہیں تھی۔ ایس او پیز کے تحت اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی جمہوریت اور حوصلے کا درس دیتی تھی اب کیا ہوگیا۔ قومی اسمبلی کا مکمل اجلاس ہو رہا ہے۔ سنجیدہ مشورہ پر قومی رابطہ کمیٹی میں غور کریں گے۔
ہم نے اس وباءکے معاملہ پر تمام متعلقہ فریقوں سے مشاورت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا‘ صوبائی وزراءاعلیٰ کو خصوصی شرکت کی دعوت دی گئی۔ ہم قومی یکجہتی اور قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں‘ سندھ ہمارا ہے۔ پیپلز پارٹی وفاق کی علامت تھی۔ کراچی‘ اندرون سندھ میں کہاں لاک ڈاؤن تھا۔ سندھ حکومت نے نیک نیتی سے کوشش کی۔ ان کی محنت کو سراہتے ہیں۔
آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں نے درست فیصلے کئے ہیں وہ قابل تعریف ہیں۔ وزیراعظم نے ہرگز نہیں کہا کہ یہ لاک ڈاؤن اشرافیہ نے لگایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف اشرافیہ کا طبقہ ہے اور دوسری طرف مزدور اور دیہاڑی دار ہیں۔ اشرافیہ لاک ڈاؤن کی بات کرتی ہے ان کے پاس وسائل ہیں وہ زندہ رہ سکتے ہیں دوسرا طبقہ جن کے پاس وسائل نہیں وہ افلاس سے مر جائیں گے۔
ہمیں کرونا وائرس اور بھوک افلاس سے اپنے لوگوں کو بچانا ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں اگر لاک ڈاؤن برقرار رہتا تو 18.6 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ اس پر یورپ سمیت دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے۔ پاکستان میں شرح اموات دنیا کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں کم ہے۔
ہمارے ملک میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ٹیسٹنگ زیادہ ہونے سے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ سندھ حکومت کے تاجروں سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ آن لائن کاروبار کی پالیسی ناکام رہی۔ تاجروں نے پیر کو دکانیں کھولنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے تاجروں سے مذاکرات کئے۔ حکومت نے رمضان المبارک کے دوران مساجد میں نماز تراویح اور نمازوں کے لئے علماءکرام کی مشاورت سے ایس او پیز تیار کئے۔ 18ویں ترمیم کی اہمیت کو مانتے ہیں۔ صوبائی خودمختاری کے قائل ہیں۔
واضح طور پر کہتا ہوں 18ویں ترمیم کو دفن کرنا ہماری سیاست نہیں اس کے عمدہ پہلو پہلے بھی قبول تھے اب بھی قبول ہیں۔ دس سال میں جو تجربات ہوئے اس کے تناظر میں خامیوں کو مل کر بہتر بناتے ہیں۔ ہمارے پاس اکثریت نہیں ہم قومی پالیسی بنا رہے ہیں۔ 18ویں ترمیم صوبائی خودمختاری دینا ہے۔ ہم نے ووہان میں چین کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا۔ سندھ حکومت
ان چیزوں پر قانون سازی کیسے کر سکتی ہے جس کا ان کو کوئی اختیار نہیں‘ بجلی اور گیس کے بل معاف کرنا ان کا اختیار نہیں۔ گورنر سندھ نے بہتری کے لئے سندھ حکومت کا آرڈیننس واپس بھجوایا۔ سندھ کو سب کچھ فراہم کیا ہے اور آبادی کے تناسب سے زیادہ دیا‘ سندھ سے کوئی زیادتی ہوئی نہ ہوگی۔ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی طرح ہم سندھ میں آرہے ہیں۔ پوری دنیا کہہ رہی ہے
کرونا وائرس کے باعث عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے اس کے اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ خلیجی ممالک سے سب سے زیادہ ترسیلاب زر آتی ہیں۔ وہاں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کی بیروزگاری کا خطرہ ہے۔ ترسیلات زر اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا
کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ مقبوضہ کشمیر پہلے مشکلات کا شکار تھا کرونا سے وہاں صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ ہندو توا کی سوچ رکھنے والے بھارت کی حکومت نے تعاون کا ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ لوگوں کو مارنا شروع کردیا ہے اور اہل خانہ کو میت بھی نہیں دے رہے۔
ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور او آئی سی کو خط لکھا ہے او آئی سی خاموش کیوں ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ احساس پروگرام بی آئی ایس پی پروگرام نہیں ہے۔ ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو نقد مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔
یوٹیلٹی سٹورز میں 50 ارب روپے 19 اشیاءپر سبسڈیز کے لئے مختص کئے گئے۔ رمضان پیکج الگ ہے۔ وزیراعظم کرونا ریلیف فنڈ سے بیروزگار ہونے والوں کو امداد فراہم کی جائے گی۔ اپوزیشن کے پاس کوئی تجاویز ہیں تو سامنے لائے۔ سیاست کا جواب سیاست میں دیں گے۔ مل کر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔