ماضی میں پائلٹوں نے جعلی لائسنس بھی حاصل کئے’ اس کی بھی مکمل تحقیقات کرائی جائیں گی،غلام سرور خان 126

ماضی میں پائلٹوں نے جعلی لائسنس بھی حاصل کئے’ اس کی بھی مکمل تحقیقات کرائی جائیں گی،غلام سرور خان

ماضی میں پائلٹوں نے جعلی لائسنس بھی حاصل کئے’ اس کی بھی مکمل تحقیقات کرائی جائیں گی،غلام سرور خان

اسلام آباد(فائزہ شاہ کاظمی سے) شہری ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا ہے کہ کراچی طیارہ حادثے سمیت ماضی قریب میں ہونے والے دیگر حادثات کی رپورٹس 22 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کردی جائے گی’ کراچی طیارہ حادثے کی شفاف تحقیقات کے لئے ترکی اور دیگر

عالمی شہرت یافتہ ایئرلائنوں کے ایئر بس کے سینئر ترین پائلٹس بھی تحقیقاتی ٹیم میں شامل کئے جائیں گے’ 56800 سے زائد بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لا چکے ہیں’ ماضی میں پائلٹوں نے جعلی لائسنس بھی حاصل کئے’ اس کی بھی مکمل تحقیقات کرائی جائیں گی’

پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل اور ہوائی اڈوں کو آئوٹ سورس کرنے کے حوالے سے شفاف طریقہ کار اختیار کیا جائے گا’ ہوائی حادثے ہمارے لئے ندامت کا باعث ہیں’ شفاف تحقیقات کے ذریعے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے شہری ہوا

بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا کہ 22 مئی کو بدقسمت طیارے نے سوا ایک بجے لاہور سے کراچی کے لئے پرواز بھری اور دو بج کر 39 منٹ پر حادثے کا شکار ہوا۔ اس میں 97 افراد شہید ہوئے

اور دو خوش قسمت ترین افراد اللہ کے کرم سے محفوظ رہے۔ یہ دونوں افراد تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ کل 99 مسافر تھے جن میں دو کاکٹ پٹ کریو اور 6 کیبن کریو تھے۔ 97 شہادتوں میں

سے 95 میتوں کو ڈی این اے کے ذریعے پہچانا گیا۔ ان کے لواحقین کو سرکاری خرچ پر ٹھہرایا گیا۔ انہیں مفت ٹکٹ فراہم کئے گئے۔ میتیں گھروں میں پہنچائی گئیں۔ 82 خاندانوں کو 10,10 لاکھ روپے فراہم کئے گئے۔ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ خالد شیردل کے خاندان سمیت

بعض خاندانوں نے یہ رقم لینے سے انکار کیا ہے۔ جہاز گرنے سے 16 مکانات برے طریقے سے متاثر ہوئے۔ اللہ نے ان گھروں میں بسنے والوں کی جانیں محفوظ رکھیں۔ تین بچیاں ملبے کے نیچے

آکر زخمی ہوئیں۔ ایک بچی جاں بحق ہوئی’ انہیں بھی زر اعانت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حادثہ کے وقت لوگوں کا جذبہ دیدنی تھا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ لوگوں کے نقصانات کا پی آئی اے’ سول ایوی ایشن اور صوبائی حکومت کے اداروں کے ذریعے سروے ہو رہا ہے۔ پانچ خاندانوں کو پی

آئی اے کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم تحقیقات کے نتائج جاننا چاہتی ہے۔ ماضی قریب میں چھ حادثات ہو چکے ہیں۔ بھوجا ایئرلائن کا طیارہ اسلام آباد میں گرا 150 مسافر جاں بحق ہوئے۔ ایئر بلیو کا طیارہ مارگلہ پہاڑیوں سے ٹکرایا۔ حویلیاں میں گرنے والے طیارے’

گلگت میں کریش لینڈنگ جیسے حادثات کی شفاف رپورٹس سامنے نہیں آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ان حادثات کی کوئی تو وجہ ہے کسی کو تو ذمہ دار ٹھہرانا ہوگا۔یہ حادثات ہمارے لئے باعث ندامت ہیں۔ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لئے شفاف تحقیقات کے ذریعے ذمہ داروں کا

تعین کرنا ہوگا۔ یقین دلاتا ہوں کہ 22 جون کو کراچی طیارہ حادثہ سمیت ماضی قریب میں ہونے والے 5 حادثات کی رپرٹیں 22 جون کو ایوان میں پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ خرم دستگیر نے سات سوالات رکھے ہیں ان کا خیر مقدم کرتا ہوں اور تمام سوالات پر عملدرآمد ہوگا۔ سپریم

کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے کہ پی آئی اے کے پائلٹس اور دیگر سٹاف کی ڈگریاں چیک کرائیں۔ ڈگریاں چیک کرائیں تو 546 ملازمین کی ڈگریاں جعلی نکلیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مداخلت کے ذریعے اداروں کو برباد کیا گیا۔ صرف ڈگریاں ہی نہیں پائلٹوں نے پچھلے ادوار میں جعلی لائسنس

بھی لئے۔ کب انہوں نے لائسنس حاصل کئے’ کیسے حاصل کئے اور کس دور میں لئے سب چھان بین ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انکوائری سکیم میں تین ایئر فورس’ ایک سول ایوی ایشن اتھارٹی کے افراد شامل ہیں۔ تحقیقات کی شفافیت پر سوال اٹھایا گیا۔ گزشتہ روز میں نے آرڈرز کئے ہیں کہ

انٹرنیشنل پائلٹس ایسوسی ایشن سے کہا جائے کہ ترکش اور امارات ایئرلائن کے ایئر بس کے سینئر ترین دو پائلٹ ہمیں دیئے جائیں۔ اس سے شفاف تحقیقات میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وائس اور ڈیٹا باکس اہم شواہد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پی آئی اے کا 482 ارب کا خسارہ ورثے میں

ملا۔ ہم نے ماہانہ خسارہ کم کیا ہے۔ ہم نے کسی کو نوکری سے نہیں کالا مگر دنیا بھر میں برٹش ایئرلائنز سمیت دیگر ایئر لائنوں نے اپنے ہزاروں ملازمین برطرف کئے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں 56800 سے زائد پھنسے پاکستانی جن میں نوکریوں سے نکالے جانے والے’ تبلیغی

جماعت کے ارکان’ زائرین اور پاکستانی طلباء شامل ہیں’ انہیں خصوصی پروازوں کے ذریعے واپس لایا گیا۔ 1712 پاکستانی قیدیوں کو واپس لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کی وطن واپسی کا معاملہ این سی او سی میں زیر بحث ہے۔ وہاں سے سفارشات این سی سی کے اجلاس میں جاتی ہیں۔

ہم نے وزیراعظم سے درخواست کی ہے کہ صوبائی حکومتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے کیونکہ پروازیں صوبوں میں لینڈ ہوتی ہیں۔ کوئٹہ کے لئے بھی یہ سہولت رکھی جائے گی۔




اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں