عطائی ڈاکٹرز کا راج محکمہ ہیلتھ خاموش تماشائی .محکمہ ہیلتھ کے نوٹس میں باوجود عطائی ڈاکٹروں کا مسئلہ جوں کا توں
سنگجانی(محمد قاسم)عطائی ڈاکٹرز کا راج محکمہ ہیلتھ خاموش تماشائی ترنول کے گردونواح کے علاقوں میں ہرطرف عطائی ڈاکٹرز کا راج.محکمہ ہیلتھ کے نوٹس میں باوجود عطائی ڈاکٹروں کا مسئلہ جوں کا توں۔ذرائع کے مطابق محکمہ ہیلتھ میں کرپٹ لوگوں کی سرپرستی حاصل۔جعلی ڈاکٹرز یعنی انسانوں کیلئے موت کے پروانے باٹنے والے ڈرگ انسپکٹرز کی زیر نگرانی ہی پرورش پاتے ہیں دونوں طرف سے کرپشن کرکے لاکھوں کی منتھلیاں باقاعدہ وصول کرانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ حالانکہ یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے
کہ کسی بھی ایماندار ایس ایچ او اور ڈرگ انسپکٹر کے علاقے میں کسی واردات کا امکان نہیں ہو سکتا مگر موجودہ مادی دور میں ایماندار کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جعلی ڈاکٹرز ارو جعلی زائد المعیا د ادویات کی فروخت کا سلسلہ دھڑلے سے جاری ہے۔جس کے مریضوں پر مرتب برے اثرات بڑے ہوش ربا اور اذیت ناک ہیں نہ کوئی ڈگری نا ہی ڈپلومہ مگر ہر مرض کے علاج کا دعویٰ۔ عطائی ڈاکٹروں نے وفاقی دارالحکومت میں صحت کے نام پر کاروبار چمکا لیا۔ تفصیلات کےمطابق ترنول کا یہ علاقہ جہاں ہرطرف عطائی ڈاکٹر کلینک کھولے بیٹھے ہیں ترنول میں چار غیر تربیت یافتہ معالج موجود ہیں ہر کسی نے اپنے میڈیکل سٹور بھی کھول رکھا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ کچھ کلینکس کی آڑ میں جسم فروشی کا بھی کام ہو رہا ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ کلینک کے باہر لگے بورڈ پر نام کسی اور ڈاکٹر کا اور علاج کوئی اور کرتا ہے۔عطائی ڈاکٹر نہ صرف غلط علاج کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں مبتلا کر رہے ہیں۔دیگر موذی امراض پھیلانے میں بھی مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔چند کلینکس پر پندرہ ہزار سے دس ہزار میں اب ابوشن کیے جاتے ہیں۔ترنول کے مقامی صحافیوں نے جب بھی ان کی نشاندہی کی تو آگے سے یہ انسانی زندگیوں کے سوداگر بھتے کا الزام لگا دیتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چند ایک عطائی ڈاکٹروں کی سرپرستی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کا رہے ہیں ایک طرف عطائیت کا بازار گرم ہے،دوسری جانب بعض نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی لوٹ مار کے باعث عام بیماری کے علاج کیلئے آنے والے مریضوں کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ترنول میں عطائیت عروج پر ہے اور غیر مستند افراد مسیحا بن کر قیمتی انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں، جن کیلئے حکومت نے ہیلتھ کیئر کمیشن سمیت بعض دیگر ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں
اور ان اداروں پر قومی خزانے سے سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، تاہم جعلی ڈاکڑوں اور کلینکس کی تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر روز جعلی کلینکس میں لوٹے جانے والے مریضوں کی داستانیں منظر عام پر آرہی ہیں۔تاہم صحت کے شعبے میں سوشل میڈیا پر ترقی تو دیکھنے میں آئی، تاہم عملی طور پر ترنول میں نجی اسپتال کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے، جہاں غریب مریض اب بھی رلتے رہتے ہیں،