اٹک پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی تنویر اعوان کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا 151

اٹک پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی تنویر اعوان کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا

اٹک پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی تنویر اعوان کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا

اٹک (محمد انیس چیف رپورٹر)پاکستان میں صحافت کرنا خطرناک بنتا جا رہا ہے ہے۔حکمران پولیس کے ذریعے مختلف طریقوں سے صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان اس وقت دنیا میں صحافت کے حوالے سے خطرناک ملک بنتا جا رہا ہے۔ جہاں پر حکومت طاقت کے زور پر صحافیوں کا معاشی قتل، تشدد، قتل و غارت اور جھوٹے مقدمات درج کر کے قلم کی نوک اور کیمرا کی آنکھ کو کچلنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک میں خاص طور اٹک کے صحافی گزشتہ ایک دہائی سے اٹک پولیس کےنشانہ پر ہیں۔ عوام کے مسائل اعلیٰ ایوانوں تک پہنچا رہے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت بھی کر رہے ہیں

اٹک پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی تنویر اعوان کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا

۔مگر افسوس کہ وہ قلمکار صحافی غیر محفوظ ہیں۔اور وہ اپنی بقا کی جنگ اکیلے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کو سب سے زیادہ نقصان موجودہ حکومت میں پہنچا ہے۔ اگر ملکی تاریخ کے 74 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں جتنا ظلم، تشدد، جبر قتل و غارت اور جھوٹے مقدمات رکارڈ ہوئے ہیں اتنے گزشتہ 74سالوں میں نہیں ہوئے۔موجودہ حکومت کی جانب سے صحافیوں کی جان مال کی حفاظت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا گیا ہے۔صحافیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔اور مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔صحافی تنویر اعوان کا ایک روز قبل وزیر داخلہ کو لکھا گیا خط۔۔ایک روز قبل ہی صحافی تنویر اعوان کی جانب سے وزیر داخلہ کو اٹک پولیس کی بدمعاشی بارے کیا لکھا تھا۔

بخدمت جناب وفاقی وزیر داخلہ حکومت پاکستان اسلام آباد۔پنجاب پولیس اٹک کی پولیس گردی اور سازش کے تحت مُجھے مقدمات میں ملوث کرنے لیے پلاننگ آپ کو پولیس گردی کے بارے میں بتانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے آپ تو خود پولیس گردی کا شکار رہ چُکے ہیں اور جانتے ہیں کہ پولیس کیسے جھوٹی FIR درج کر کے “” کلاشنکوف “” کی بوگس برآمدگی ڈال دیتی ہے آپ پر یہ کیس 1993/94 میں ڈالا گیا تھا اس سارے حوالے کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آج 27/28 سال بعد بھی پولیس کے وطیرے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آج بھی پولیس اُسی طرح جُھوٹی FIRs اور سراسر بوگس بر آمدگیاں کر کے شُرفا، امن پسند اور قانون و انصاف کی بالادستی کے لیے کام کرنے والوں پر اوچھے ہتھکنڈے آزما رہی ہے۔


جناب عالی! میں نے اٹک پولیس کی مافیا سے ملی بُھگت، جانبداری، ٹاؤٹس کے ذریعے جُھوٹی FIRs اور ناقص تفتیش کو ہر فورم پر اُٹھایا ہے اس لیے اٹک پولیس مکمل طور اس چکر میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح مُجھے کسی کیس میں بلاوجہ involve کر دے۔ حتی کہ یہاں تک سازش کی جا رہی کہ 295C بھی لگانی پڑے تو لگانے سے دریغ نہ کیا جائے۔
جناب عالی! آپ کو بروقت اطلاع دے رہا ہوں

تاکہ یہ مسئلہ حد سے گُزر جانے سے پہلے پہلے آپ کے نوٹس میں۔تاہم ابھی تک وزیر داخلہ کی جانب سے ایپلیکیشن پر کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی تنویر اعوان کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔حکومت صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے غیر سنجیدہ ہے یا وہ خود صحافت کا گلہ گھونٹ رہی ہے۔سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے کہ جن صحافیوں پر مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ان کا جرم صرف لکھنا، مسائل کو اجاگر کرنا، اور عوامی اشوز کو ہائی لائٹ کرنا ہے۔

میں ایسے صحافیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے آج تک کیڑے مکوڑوں کو بھی نہی مارا ہوگا ان کے خلاف ایک درجن، آدھا درجن دہشتگردی ایکٹ، بغاوت، ریپ، چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان کی کوشش سمیت سنگین کیسز دائر کیے گئے ہیں۔ جو کہ حکومت اور پولیس کی نا اہلی لاپرواہی اور کھلی دہشت گردی ہے۔جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دوسری جانب صحافتی تنظیموں کی جانب سے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔

کیسز میں ایسے ایسے پولیس افسران ملوث ہیں جن کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہی ہے۔حکومت پنجاب پولیس کی جانب سے صحافی تنویر اعوان کے خلاف دائر مقدمات کا نوٹس لے کر جوڈیشل انکوائری کرائی جائے اور کیسز میں ملوث پولیس افسران اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور صحافیوں کے حقوق تحفظ کے لئے قانون سازی کر کے مکمل طور پر تخفظ فراہم کیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں