ٹھٹھہ معروف کینجھر جھیل انتظامیہ کی عدم توجہہگی کے بناء اپنی خوبصورتی اور قدرت کے دئے گئے رنگ کھو رہی ہے 125

ٹھٹھہ معروف کینجھر جھیل انتظامیہ کی عدم توجہہگی کے بناء اپنی خوبصورتی اور قدرت کے دئے گئے رنگ کھو رہی ہے

ٹھٹھہ معروف کینجھر جھیل انتظامیہ کی عدم توجہہگی کے بناء اپنی خوبصورتی اور قدرت کے دئے گئے رنگ کھو رہی ہے

ٹھٹھہ (امین فاروقی بیوروچیف ٹھٹھہ)سندھ کے قدیمی ضلع ٹھٹھہ میں واقع نوری جام تماچی کی عشقیہ داستان سے معروف کینجھر جھیل منسلک انتظامیہ کی عدم توجہہگی کے بناء اپنی خوبصورتی اور قدرت کے دئے گئے رنگ کھو رہی ہے کینجھر جھیل جو 24223 ایکڑ اور 105 کلو میٹر لمبائ پر مشتمل ہے یہاں 40 سے زائد ملاح ماہیگیروں کے گاوں آباد ہیں مذکورہ جھیل حیدرآباد روڈ پر ٹھٹھہ شہر سے 20 کلو میٹر آگے کیطرف ہے
کینجھر جھیل اس وقت متعد مسائل اور وسائل سے دو چار ہے جبکہ کوٹری و نوری آباد کے اطراف کی کیمیکل زدہ فیکٹریوں کا زہریلا پانی اسمیں داخل کیا جاتا ہے کینجھر کے چاروں اطراف غیر قانونی قبضے بھی جاری ہیں آج سے پچیس یا تیس سال قبل کینجھر جھیل ایک شاہکار اور خوبصورتی میں ایک تھی یہاں 12 ایسے پوائنٹس تھے جنمیں مچھلیوں کی زبرست آفزائش ہوتی تھی

وہ مچھلی ٹرین اور ٹرکوں کے ذریعے ملک بھر میں جاتی تھی جسے یہاں کے ماہیگیر خوشحال زندگی گذارتے رہے اْس وقت کینجھر پر منچھر جھیل، سانگھڑ اور بدین سمیت پنجاب سے بڑی تعداد میں ماہیگیر ملاح ہجرت کرکے یہاں روزگار کرتے تھے 1976 سے پہلے سندھو دریا کا پانی کینجھر جھیل میں چھوڑا جاتا تھا جسکی وجہ سے چھوٹی بڑی مچھلی سمیت کیکڑوں سے یہ جھیل بھر جاتی تھی لیکن افسوس کہ اب متعلقہ اداروں کی بے توجہگی اور غلط پالیسیوں کے باعث اور نا تجربہ کار منصوبوں کے تحت اب کینجھر جھیل تباہ کردی گئ ہے جس جھیل سے پچھلے برسوں میں ہزاروں ٹنز کی تعداد میں مچھلی اور کیکڑے ریل اور ٹرکوں کے ذریعے دنیا

میں سپلائ ہوتے تھے اب ایک دانہ تک نہی ملتا اتنے بڑے بحران کے سبب یہاں کے ملاح ماہیگر بھوک و افلاس کا شکار ہوچکے ہیں جنمیں اکثریت ہجرت کرکے سندھ و پنجاب کے دیگر پوائنٹس پر جا بسے ہیں اور جو یہاں بچے ہیں وہ اپنا خاندانی ذریعہ معاش چھوڑ کر پتھر روڑی بجری کاٹ کر نکال کر بیچتے ہوئے اپنا گذر بسر کررہے ہیں اور ستم ظرفی کہ اب انمیں انکی نوجوان نسلیں کینجھر جھیل پر آئے ہوئے سیاحوں کی گاڑیاں دھو کر اور ڈھابہ ہوٹلوں پر کام کرکے وقت گذار رہے ہیں
1976 میں لنک کینال کلری بگھاڑ ٹھٹھہ جو ایگری کلچر کے لئے بنایا گیا تھا جو RD 2.4 چلیا سائیڈ کے قریب ہے اسکا دریاء سندھ جامشورو سے آیا ہوئے پانی کا رخ سدو کینال کی طرف کیا گیا ہے اور کینجھر میں پانی دینے والا ریگولیٹر کا رخ بھی موڑ دیا گیا ہے جسکی وجہ سے دریاء میں آنے والی قدرتی مچھلی اور مچھلی کا بیج اور کیکڑے وغیرہ 90 فی صد لنک کینال میں ڈال کر سمندری نالوں میں ضائع ہوجاتی ہے باقی 10 فی صد مچھلی اور اسکا بیج کینجھر جھیل میں ڈال دیا جاتا ہے جو جو کراچی کینال میں سے نکل جاتا ہے ان صورتحال کی وجہ سے اور کینجھر جھیل کی صحیح مالکی نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کی خوبصورت کینجھر جھیل اب اپنی خوبصورتی چھوڑتی جارہی ہے کینجھر جھیل کی نگرانی والے پانچ ادارے ہیں

جو واٹر بورڈ، ٹوئرزم، ایریگیشن، وائلڈ لائف اور فشریز ادارے دعویدار ہیں جبکہ فشریز کی طرف سے کینجھر جھیل میں سندھ حکومت کی ہدایت پر AAP کے تعاون سے بڑی تعداد میں مچھلی کا بیج چھوڑنے کا دعویدار ہے یہ مچھلی کہاں ہے ؟ کسے خبر نہی ریگولیٹر پر لگے نشان بھی زبوں حالی کا شکار ہیں جسکی وجہ سے چھوڑی گئ مچھلیاں بھی دیگر بیراجوں میں جاکر ضائع ہورہی ہیں دوسری طرف حالیہ بارشوں کی وجہ سے نوری آباد اور کوٹری کی فیکٹریوں سے زہریلا فضلاء برساتی نالوں سے گذر کر کینجھر جھیل میں شامل ہورہا ہے جس کی وجہ سے آبی پرندے اور انکی آماجگاہ ختم ہوتی جارہی ہے

دوسری طرف کراچی سمیت دیگر شہروں سے ہزاروں کی تعداد میں آنے والے سیاح کینجھر جھیل میں غیر ذمہ دارانہ طریقوں سے نہاتے ہیں چونکہ یہ میٹھا پانی سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کو جاتا ہے اور لوگ اسے پیتے ہیں اب مضر صحت بن چکا ہے ضرورت اس بات کی ہیکہ سندھ کی خوبصورت جھیل کینجھر پر متعلقہ ادارے توجہ دیں اور اسے تباہی سے بچائے اسکے اطراف قبضوں کو ختم کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہاں کے قدیمی ملاح ماہیگیروں کے روزگار کو بچاتے ہوئے مزید پچھلے عروج پر پہنچایا جائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں