ترنول میں ہونے والی جھوٹے مقدمات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کی جائے،اہل علاقہ
اسلام آباد ( سٹی رپورٹر)ترنول میں ہونے والی جھوٹے مقدمات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی قائم کی جائے۔حلقہ این اے 54 یوسی 48 میں انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنا منتخب نمائندے اسد عمر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے جھوٹے مقدمات کی تحقیقات اور اصل حقائق سامنے نہ لانا منتخب نمائندے اسد عمر کی جانب سے خاموشی واضح دلیل ہے یوسی 48 میں پی ٹی آئی کے سیاسی کارکن ملوث ہے
۔اہل علاقہ کا سکون تباہ کرنے والے اور جھوٹے مقدمات میں ملوث افراد کو منظر عام پر لایا جائے۔اغوا برائے تاوان لڑائی جھگڑےاور 7ATA جیسے سنگین مقدمات کا جھوٹا اندراج نے اہل علاقہ کو ذہنی مریض بنا دیا متاثرین حلقے کے منتخب نمائندے اسد عمر کے تبدیلی کے دعوے دھرے کے دھرے یوسی 48 نون لیگ کی اشراقیہ کے بعد پی ٹی آئی کے اشرافیہ بھی انہی کے نقش قدم پر منتخب نمائندے اسد عمر کو تحقیقات کی اپلیکیشن دی وہ بھی ردّی کی ٹوکری میں ہے۔اس سے پہلے بھی کئی
مقدمات ایپلیکیشن آئی جی اسلام آباد کو دی گئی تبدیلی سرکار ان پر بھی حاوی ہو گئی۔حلقہ این اے 54 یوسی 48 میں صحافی بھی غیر محفوظ جب بھی طاقت وروں کے سیاہ کارنامے طشت ازبام کرتے اس کے اگلے دن ہی ان کے خلاف مقدمہ دائر ہو جاتے ہیں۔جیسے کہ سیکٹر سی 16 میں ہونے والے پولیس عوام تصادم میں اشراقیہ کی جانب سے صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی۔مقامی صحافیوں کی جانب سے کہا گیا طاقت کے نشے میں سچ کو دبایا نہیں جا سکتا۔ سچ نہ کل دبا تھا
اور نہ مستقبل میں دبے گا۔ سچ لکھنے کی پاداش میں ایک نہیں سو بار جھوٹے مقدمات بنا کر پابند سلاسل کیا جائے بخوشی قبول کریں گے کیونکہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے اور جھوٹ کا منہ کالا ہوتا ہے۔کچھ عرصہ قبل سنگجانی میں جھگڑے، جس کی نوعیت مسلکی تھی،مقامی کالے کرتوتوں سے بھرپور سیاسی نے مخالفین ایف آئی آر درج کرانے کے لیے خود مضمون تحریر کر کے دیا کہ یہ ایف آئی آر آپ خود جا کر تھانے میں درج کرا دیں۔ضمانت کنفرم ھونے کے بعد مقدمہ سے دستبرداری میں ہی عافیت سمجھی
۔انگریزوں نے یہ قانونی نظام شاید اسی لیے ہمیں دیا تھا کہ ہم معاشرتی طور پر اخلاقی دیوالیہ پن کے عادی بنیں اور اس نظام کے نتائج اس کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دے رہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانونی نظام سے نجات حاصل کر کے اسلامی تعلیمات اور شرعی قوانین کی طرف رجوع کیا جائے اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔متاثرین نے وزیراعظم پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ترنول میں درج ہونے والے جھوٹے مقدمات کا ازخود نوٹس لیا جائے۔متاثرین کا کہنا ہے
کہ ان مقدمات کے مدعیوں کا تعلق ایسے سیاسی افراد سے ہے جن کے خلاف کارروائی کرنا شاید کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔جو افراد جھوٹے مقدمات میں اپنی زندگی کا ایک حصہ جیلوں میں گزار دیتے ہیں تو پاکستان کی کوئی بھی عدالت یا کوئی بھی قانون جیل میں گزاری جانے والی اس مدت کا ازالہ نہیں کرسکتا۔تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود ہے جس کے تحت جھوٹے مقدمات درج کروانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔