ٹھٹھہ :سندھی گرلز اسٹوڈینٹس تحریک کی جانب سے سندھی شاگردیانیوں کے مسائل پر کانفرنس
ٹھٹھہ (امین فاروقی بیورو چیف)سندھی گرلز اسٹوڈینٹس تحریک کی جانب سے سندھی شاگردیانیوں کے مسائل پر کانفرنس مرکزی آفس پلیجو ہاوس میں منعقد ہوئ جہاں عوامی تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر عبدالقادر رانٹو ، عوامی تحریک کی مرکزی نائب صدر حورالنساء پلیجو ، سندھی گرلز اسٹوڈینٹس تحریک کی مرکزی صدر ساجدہ پرہیاڑ ، عوامی تحریک کے مرکزی جنرل سیکریٹری نور احمد کاتیار ،
سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر سبھانی ڈاھری ، سندھی شاگرد تحریک کے مرکزی صدر عاطف ملاح ، سجاگ بار تحریک کے مرکزی صدر اعتزاز گانجی ، سندھی گرلز اسٹوڈینٹس تحریک کی مرکزی سینئیر نائب صدر کائنات ڈاہری ، عوامی تحریک کے دیگر رہنماوں ماہ نور ملاح ، گل حسن کیرانی ، ایڈوکیٹ راحیل بھٹو ، کاشف ملاح ، اور ایاز صالح پلیجو سمیت مختلف کالجز یونیورسٹیوں کی طالبات ،
ہاری مزدور رہنماوں وکلاء شاعر ادیب اور سیاسی سماجی رہنماوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اس موقع پر سندھی گرلز شاگرد تحریک کی نئ باڈی کا انتخاب عمل میں لایا گیا جسے مرکزی بانی رہنماء حورالنساء پلیجو نے حلف لیا SGST کی نیو منتخب باڈی کے عہدیداران میں مرکزی صدر ساجدہ پرھیاڑ ، سینئر نائب صدر کائنات ڈاہری ، جنرل سیکریٹری زاہدہ لاشاری ، نائب صدر سورٹھ مگنہار ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری کائنات ہالیپوٹو ، جوائینٹ سیکریٹری شازیہ جونیجو ، خزانچی ممتاز کیرانو ، پریس سیکرٹری پرھ ملاح ،
رابطہ سیکرٹری کونج لاشاری ، آفس سیکرٹری ثمرین خاصخیلی ، سوشل میڈیا سیکرٹری ساجدہ خاصخیلی ، اور ممبران میں سورٹھ ڈاہری ، ماروی لاشاری ، ساک سندھو ، ثمینہ لاشاری ، شمائلا جروار , انیسہ کھو سو ، شازیہ جونیجو , بختاور برہمانی ، حناء جتوئ ، نومارا کاتیار ، حفصہ میمن ، میہوش برہمانی ، اور نرما ٹالپور کو منتخب کیا گیا کانفرنس میں سندھی گرلز شاگرد تحریک کی محرک طالبات نے
قومی گیت اور ٹیبلوز بھی پیش کئے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کے مرکزی سینئر نائب صدر عبدالقادر رانٹو نے کہا کہ سامراجی قوتوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے سندھ کے وسائل تعلیم اور روزگار پر قبضہ کر رکھا ہے سندھ میں تیزی بڑھتی غیر آبادی انہی کا شاخسانہ ہے جسے سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہے موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں پی ڈی ایم کی
قیادت خصوصاً پیپلزپارٹی نے کرسی کی خاطر سندھ پر دہشت گردوں کو مسلط کردیا ہے ایم کیو ایم سیاسی پارٹی نہی بلکہ جانی پہچانی دہشت گرد گروہ ہےعوامی تحریک کی مرکزی نائب صدر حورالنساء پلیجو نے کہا کہ سندھ کے شاگرد خصوصاً شاگردیانیوں کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں شامل ہوکر عوامی جدوجہد کرنی ہوگی سندھ کے وجود اور بقاء میں سندھی طالبات اور عورتوں کو
سیاسی شعور اجاگر کرنا ہوگا سندھی گرلز شاگرد تحریک کی مرکزی صدر ساجدہ پرہیاڑ نے کہا کہ سندھ کے حکمران وحشی اور مردار جاگیرداری نظام کو زندہ رکھنے کے لئے سندھ کی تعلیم خصوصاً عورتوں کی تعلیم کو تباہ برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں طالبات کو حراساں کرنے والے وحشی درندوں کو سندھ حکومت کی سرپرستی حاصل ہے سندھی گرلز شاگرد تحریک نے سندھی طالبات کے حق میں ہر فورم پر مزاحمتی کردار ادا کیا ہے
کانفرنس میں قراردیں پاس کی گئ جنمیں نمایاں طلباء و طالبات کے حقوق کے جائز مطالبات درج تھیں سندھی طالبات کے مسائل اور سندھی گرلس اسٹوڈنٹ تحریک کی کنوینشن میں منظور شدہ قراردادیں:
سندھی لڑکیوں اور پوری قوم کو تباہ کرنے والی انسان دشمن رسومات جیسے کہ: غیرت کے نام پے قتل کرنا، تمام مکروہ شادیاں، قرآن سے شادی، لڑکیوں کی خرید و فروخت اور تمام گھریلو تشدد پر قانونی پابندی لگائی جائی اور ان وحشیانہ رسومات کو ختم کرنے کے لیے فوری اور موثر قانون بنائے جائیں.
ایس جی ایس ٹی کی یے کنوینشن مطالبا کرتی ہے کہ عورت کو غلام رکھنے والے جاگیردارانا نظام اور عورت دشمن ذہنیت کے خلاف ترقی پسند مکتب فکر کے افراد اپنا اپنا کردار ادا کریں. اس کے ساتھ ادیبوں, شاعروں,مصوروں اور دیگر دفنکاروں کو چاہیے کہ وہ اس ذہنیت کے خلاف جنگ کرییں اور اپنی سوچ اور عمل کے ذریعے ان عوامل کو قابل نفرت بنائیں. وفاقی و صوبائی اداروں سے مطالبا کیا جاتا ہے
کہ ہر کلاس کی نصاب میں اس حوالے سے اسباق شامل کئے جائیں. تعلیمی اداروں, کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر لڑکیوں کے ہاسٹلز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ طلباء و طالبات کو ہاسٹلز کے اندر بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
: یونیورسٹیوں کے اندر پوائنٹ بسوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، یونیورسٹی یا کالج کے 100 کلومیٹر کے اردگرد تمام طلباء و طالبات کو آمدورفت کی سہولت فراہم کی جائے اور یونیورسٹیوں کی سرکاری پوائنٹ بسوں کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے قبضے سے آزاد کرایا جائے۔ تمام سٹاف بشمول اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر بھرتی کیا جائے اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو انتظامی
اور انہیں کو ملازمت دی جائے گی۔ سندھی گرلز سٹوڈنٹس تحریک سمجھتی ہے کہ یہ سندھ دشمن ملک دشمن معاہدہ سندھی قوم کی وحدت اور اسکے قومی تشخص پر وار ہے اور اس معاہدے کے ذریعے عالمی سامراجی طاقتیں سندھ میں نیا اسرائیل بنا رہی ہیں۔ یہ کنونشن اس ملک دشمن معاہدے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کو مکمل طور پر رد کرتی ہے۔کے ایس پی ksp پالیسی کے تحت کراچی کی
یونیورسٹیوں میں سندھی طلبات کے داخلہ پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ہے کنوینشن مطالبہ کرتی ہے کے KSP پالیسی کو جلد از جلد ختم کرکے سندھ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سندھی طلبات کی داخلا کو یقینی بنایا جائے.
نوشین کاظمی، کے مبینا قتل کی انکوائری رپورٹ کو منظرعام پر لاکے تعلیمی اداروں میں قتلِ عام کرنے والے درندوں کو فانسی کے فھندے پے لٹکایا جائے۔سندھ ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں کی سربراہی میں طلباء رہنمائوں اور دیگر سول سوسائٹی کے نمائندوں کو میمبر کی طور پر لیا جائے اور ڈاکٹر نمرتا کے قتل کی دوبارا جوڈیشل انکوائری کرکے ڈی این اے اینڈ فارنزک لیب لمس جامشورو کی
رپورٹ کی روشنی میں جوڈیشل انکوائری کرکے رپورٹ فورن عوام کے سامنے پیش کی جائے۔ سندھی ہندو لڑکیوں کو اغوا کرکے ذبردستی ان کا مذہب تبدیل کرکے اور جبری شادی کرنے کی یے کانفرنس شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ سندھ میں سندھی ہندو لڑکیوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔
پرائمری سطح سے کمپیوٹر کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔اگرچہ تیسرے درجے سے لے کر طلبہ کو ماس میڈیا اور سوشل میڈیا کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے سندھ حکومت نے غیر ملکی مالیاتی اداروں سے اربوں روپے کے قرضے لیے ہیں، لیکن سندھ حکومت کی کرپشن کی وجہ سے یہ رقم طلباء طلباء کو
سندھی طالبات کے لیے وظائف کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔سندھ میں ہر پانچ کلومیٹر کے بعد لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے جائیں۔تحقیقی تجربہ گاہیں جدید سائنسی علم کے معیار مطابق کی جائیں۔
غیر منسلک افراد کے یونیورسٹیوں اور ہاسٹلز میں جانے پر پابندی عائد کی جائے۔طلبہ و طالبات کو یونیورسٹیوں کے اندر سیاست کا حق دیا جائے اور طلبہ یونین کو حقیقی معنوں میں فعال کرکے طلباء کی الیکشن کرائی جائے۔ سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو اور پنجابی سمیت صدیوں پرانی قومیتوں کی مادری زبانوں کو قومی زبانوں کا درجا دیا جائے۔ سندھی طلباء کو تعلیم کی تکمیل کے بعد مناسب روزگار کی ضمانت دی جائے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں فیسیں بڑہا کر تعلیم جیسے بنیادی حق کو چھیننے والی سامراجی طاقتوں پر کنٹرول کیا جائے۔ وفاق کے زیر انتظام (HEC) جیسے ادارے کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے محکمہ تعلیم کے ماتحت کر دیا گیا ہے، جو عمل ہیک جیسے وفاقی ادارے اور صوبوں سے زیادتی ہے۔ یہ کنونشن مطالبہ کرتا ہے
کہ ہیک کو بااختیار کرکے اسے بااختیار طور پے کام کرنے دیا جائے۔ پیپلزپارٹی کی کرپشن کے باعث سندھ کے تعلیمی ادارے کرپشن اور دیگر کئی امراض کا شکار ہیں۔ جب کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم خالصتا” صوبائی مسئلہ ہے لیکن سندھ حکومت کی جانب سے صوبے میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی صوبائی ہیک کو درست طریقے سے نافذ کیا گیا ہے
۔ اس کانفرنس نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ صوبائی ہیک کو جلد از جلد بحال کیا جائے اور اس کے چیئرپرسن کے عہدے ڈاکٹر عاصم جیسے کرپٹ لوگوں کی بجائے میرٹ کی بنیاد پر ماہرین تعلیم اور تعلیمی اسکالرز کو مقرر کیا جائے۔
سندھ کے تعلیمی اداروں میں کرپشن کی وجہ سے گریڈز کا بازار گرم ہے جس سے میرٹ ختم ہو رہا ہے اور غریب طلباء و طالبات جو گریڈ نہیں خرید سکتے وہ تعلیم سے محروم ہیں۔ اس کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں گریڈ فروخت کے بازار کو ختم کیا جائے اور گریڈ فروخت کرنے والے اہلکاروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے، ساتھ ہی گریڈز فروخت کرنے والے بورڈز کو گرفتار کرکے
کم از کم عمر قید کی سزا دی جائے۔ اور سندھ کے تعلیمی بورڈز کی طرف سے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر امتحانی فیسی بڑھا کر طلبہ کے اجتماعی قتل کو روکا جائے۔سندھ یونیورسٹی سمیت سندھ کی تمام یونیورسٹیوں میں گرلز اور بوائز ہاسٹلز میں ڈسپنسریوں اور ایمبولینسز کا انتظام کیا جائے تاکہ طلباء کسی بھی بڑی ایمرجنسی سے بچ سکیں اور ابتدائی طبی امداد کے تحت علاج کیا جاسکے۔
جامعہ کراچی سمیت کراچی کے تمام تعلیمی اداروں میں سندھ کے طلباء و طالبات کے لیے ہاسٹل الاٹ کیے جائیں۔سندھ یونیورسٹی کے ماروی گرلز ہاسٹل میں سیکیورٹی گارڈ اور انٹری پر بیٹھی انتظامیہ کا طالبات کے ساتھ رویہ انتہائی ناروا ہے۔ انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کانفرنس ماروی ہاسٹل سمیت سندھ کے تمام گرلز ہاسٹلز میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرکے
دوسری طرف بہت زیادہ مچھر ہونے کی وجہ سے ملیریا اور دیگر بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ یہ کنونشن مطالبہ کرتا ہے کہ ہاسٹل کے ہر کمرے میں پنکھوں کی تعداد بڑھائی جائے اور مچھر مار سپرے کیا جائے۔
سندھ کے تمام تعلیمی اداروں میں ہر سال تمام طلباء کو مفت اسٹڈی ٹوئر کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
طلباء کو کھیلوں، تقریروں، گیتوں، ٹیبلوز اور دیگر ایکسٹرا کریکیولم ایکٹوٹیز میں مواقع فراہم کیے جائیں۔
: نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل ڈپلومہ کورسز کے ادارے اور دیگر شعبے کھولے جائیں اور انہیں ٹیکنیکل فیلڈ میں آگے لایا جائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات کو بھی ٹیکنیکل کورسز کرائے جائیں۔
ہر سطح کے تمام اسکولوں میں لڑکیوں کے کھیل کے میدانوں کا تعین کیا جائے اور لڑکیوں کے کھیل کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
سندھی لڑکیوں کے لیے نمائشیں، تقریب، میلے اور بحث و مباحثوں کے پروگرام منعقد کیے جائیں، خاص طور پر دیہی علاقوں کی لڑکیوں کو ان میں حصا دلایا جائے اور انھیں سماجی طور پر آگے لایا جائے۔
اینٹی ریپڈ ٹرائل اینڈ انویسٹی گیشن ایکٹ 2021 پر عمل کرکے خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے مقدمات کے لیے الگ الگ عدالتیں قائم کرکے، جوابداروں کو جلد از جلد سزائیں دی جائیں ،
اور مذکورہ بالا قانون کے مطابق خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جانچ پڑتال کے لیے فوری طور پر ٹیمیں بنا کر متاثرین کا انصاف کیا جائے گا، لیکن قانون پر عمل کرنے کی بجائے انصاف میں دیر کرکے ملزمان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔
تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح میں اضافہ، سیکنڈری اسکولوں میں اپ گریڈیشن، نصاب کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانا، بچوں کو ابتدائی سطح سے کمپیوٹر کی تعلیم دینا، بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے انہیں اسکولوں میں کھانا پینا معیا کرنا، 2010 کے سیلاب کی وجہ سے زبوں حال بنے ہوئے
سکولوں کی مرمت کرنے کے ساتھ طلباء کو سکولوں میں مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرنے کے لیے سندھ حکومت نے غیر ملکی مالیاتی اداروں سے کروڑوں روپیوں کے قرضے لیے جو کہ ہم آج بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مھنگائی کے ذریعے ادا کر رہے ہیں لیکن سندھ حکومت نے مذکورہ بالا منصوبوں پر کسی پے بھی کام نہیں کیا اور یہ کروڑوں روپے سندھ کے وڈیروں کے اڈوں پر خرچ کیے گئے ہیں۔
یہ کانفرنس مذکورہ منصوبوں میں کرپشن کرکے تعلیم کو تباہ کرنے والے سندہ کے کاموروں کی سختی سے گرفتاری اور انہیں عبرتناک سزا دینے اور کرپشن کی اعلیٰ سطحی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتی ہے۔
: سندھ حکومت نے کروڑوں روپوں کے قرضے لینے کے باوجود کوئی بھی تعلیمی اصلاحات نہیں کیے الٹا پھلے سے موجود تھوڑی بہت سہولیات کو ختم کرکے فیسوں کو بڑھاکر اور دوسرے طریقوں کے ذریعے طلباء اور طالبات کو تعلیم بیچ میں چھوڑ جانے پر مجبور کر رہی ہے یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ محکمہ تعلیم سمیت سندھ کی تمام جامعات کے فنڈز اور اخراجات کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔