66

ضیا شاہد کی پہلی برسی کے موقع پر’’ضیا شاہد دِیاں یاداں‘‘ کے عنوان سے ایک پر وقار تقریب

ضیا شاہد کی پہلی برسی کے موقع پر’’ضیا شاہد دِیاں یاداں‘‘ کے عنوان سے ایک پر وقار تقریب 

لاہور(سٹاف رپورٹر)پنجابی یونین کے زیر اہتمام گزشتہ روز پنجاب ہاؤس میں جیدصحافی و قلم کار ضیا شاہد کی پہلی برسی کے موقع پر’’ضیا شاہد دِیاں یاداں‘‘ کے عنوان سے ایک پر وقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت معروف صحافی وکالم نگار خوشنود علی خاں نے کی۔ مہمانان خصوصی میں ضیاشاہد کے صاحبزادے امتنان شاہد، معروف کالم نگار و گروپ ایڈیٹر روزنامہ پاکستان ایثار رانا، معروف صحافی و دانشورقاضی طارق عزیز، سینئر صحافی زاہد گوگی اور سیرت سکالر ڈاکٹر طارق شیریف زادہ تھے

۔ تقریب کی میزبانی پنجابی یونین کے چیئر مین مدثر اقبال بٹ اور وائس چیئرمین بلال مدثر بٹ نے کی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔تلاوت مدثر اقبال بٹ نے کی نعت شریف پڑھنے کا شرف عثمان منیر قادری نے حاصل کیا

عارفانہ کلام تیمور افغانی اور ندیم اقبال باہونے پیش کیا ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پنجابی میڈیا گروپ کے صدر ندیم رضا نے کہا اگر پنجابی ادب میں سے وارث شاہؒ کو نکال دیا جائے تو باقی بہت کم بچتا ہے اسی طرح صحافت میں سے ضیا شاہد کو نکال دیا جائے تو صحافت میں کچھ نہیں بچتا ۔آج کی صحافت کی بنیاد ضیا شاہد نے رکھی انہوں نے عام آدمی کی آواز اٹھائی لیکن عامیانہ زبان استعمال نہیں کیا

مجھے ضیا شاہد جیسے استاد کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن ایثار رانا اور زاہد گوگی کے ذریعے انہیں جانا ضرور ہے انہوں نے کہا کہ خبریں ضیا شاہد کا جنون تھا اور پنجاب ہائوس مدثر اقبال بٹ کا جنون ہے۔پنجاب ہاؤس میں پنجابی کی مختلف جہتوں پر کام کیا جارہا ہے یہاں پر بابا فرید لائبریری ہے اور ای لائبریری تکمیل کے آخری مراحل میں ہے،بابا گورونانک آڈیٹوریم ہے اور اسٹوڈیوہے

یہاں پر پنجابی پر تحقیق کرنے والوں کو ہر طرح کی معاونت فراہم کی جاتی یہاں تک کہ ان کی مالی معاونت بھی کی جاتی ہے سب سے بڑی بات ہے کہ پنجاب ہاؤس کے سبھی منصوبے اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیںان کے لئے کسی سے کوئی مالی معاونت نہیں لی جاتی ۔انہوں نے کہا کہ ضیا شاہد جس طرح ڈوب کر لکھتے تھے پڑھنے والے بھی پڑھتے پڑھتے اسی طرح ان کی تحریروں میں ڈوب جاتے تھے

وہ پڑھنے والے کو رُلانے اور ہنسانے کا فن خوب جانتے تھے۔ زاہد گوگی نے کہا کہ پہلے مجھے راوین ہونے پر فخر تھا آج مجھے خبریں میں کام کرنے پر فخر محسوس ہوتا ہے ۔میں نے ضیا شاہد کو انتہائی مہربان اور محبت کرنے والا پایا ہے ان کی سختی ایک استاد کی سختی تھی جو اپنے شاگرد کو کسی مقام پر پہنچانے کے لئے ہوتی ہے ۔اعظم توقیر نے کہا کہ خبریں ایک یونیورسٹی ہے جہاں سے سیکھنے والے کو سب معتبر سمجھتے ہیں اور ان کو انٹریو کے بغیر ہی نوکری پر رکھ لیتے ہیں

۔قاضی طارق عزیز نے کہا کہ ضیا شاہد ایسے غریب کی آواز سے تھے جس کا استحصال سیاستدان ،سرمایہ دار گو کہ ہر طاقتور کر رہا تھا ضیا شاہد قلم کی حرمت کے پاسبان تھے میں ان کی محبتوں کا مقروض ہوں اگر خبریں کو کبھی میری ضرورت پڑی تو میں اس کے کام کے لئے تیار ہوں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ ایثار رانا نے کہا کہ ضیا شاہد سے میرا جو تعلق ہے اسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا میں اخبار فروش تھا

غربت میںآنکھ کھولی تھی میرے جیسے غربت سے خوف زدہ شخص کو انہوں نے نکھارا اور ایک اخبار کا ایڈیٹر بنا یا۔ ضیا شاہد کے لاکھوں شاگرد ہیں لیکن جب ان کے نمبر ون شاگرد کی بات ہوگی تو اس میں میر انام ہی آئے گا ۔ضیا شاہد کے مجھ پر بہت قرض ہیں مالی ہی مقروض نہیں میری روح بھی ان کی مقروض ہے میں ان کا قرض کبھی ادا نہیں کر سکتا ۔صحافت میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مجھے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اگر ضیاشاہد کی سرپرستی نہ ہوتی تو میں کامیاب نہیں ہوسکتاتھا

۔میں نے ضیا شاہد کو ورکرز کے درد کو محسوس کرتے اور روتے ہوئے بھی دیکھا ہے ضیا شاہد کو سمجھنا اور انہیں بیان کرنا آسان نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ خوشنود علی خان کی سخت سکروٹنی نے بھی میری پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو نکھارا ہے ضیا شاہد اور خوشنود علی خان کے اشتراک نے خبریں بنایا ہے۔سیرت فاؤندیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق شریف زادہ نے کہا کہ میں نے ضیا شاہد میں حب رسول کو پایا ہے

وہ آپ کے طائف کا ذکر سن کر آبدیدہ ہوجاتے تھے ۔وہ اتنی مصروفیات کے باوجود کتب کا مطالعہ ضرور کرتے تھے اس موقع پر انہوں نے ضیا شاہد کے ایصال ثواب کے لئے دعا بھی کرائی ۔معروف صحافی و کالم نگار خوشنود علی خان نے کہا کہ ضیا شاہد کو سبھی جانتے ہیں لیکن ضیا محمد بہاولنگر ی کو کوئی کوئی جانتا ہے جس نے خیرالمدارس ملتان سے پڑھا تھا اسی وجہ سے ان …

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں