43

ضلع مہمندایلازئی رحمت کور کی حسین قدرتی مناظرکو عیدالفطر کے آیام میں مقامی سیاحوں نے تفریح کے لئے رخ کرنے لگے

ضلع مہمندایلازئی رحمت کور کی حسین قدرتی مناظرکو عیدالفطر کے آیام میں مقامی سیاحوں نے تفریح کے لئے رخ کرنے لگے 

ضلع مہمندایلازئی رحمت کور کی حسین قدرتی مناظرکو عیدالفطر کے آیام میں مقامی سیاحوں نے تفریح کے لئے رخ کرنے لگے۔سیاحوں نے گھنے جنگلات اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہو کر ٹھنڈے چھاوں میں ڈیرے ڈال کر اپنے بنائے کھانوں اور محفل موسیقی سے خوب محظوظ ہوگئے ۔گزشتہ سال رحمت کور متاثرین کوواپسی ابادکاری کی اجازت مل چکے تھے۔

مگرمزید اونچائی پر سپرے گاؤں کی متاثرین اپنے آبائی علاقہ کو واپسی اور دوبارہ آبادکاری کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔سپرے کلے کے 45 متاثرہ خاندان بنیادی ضروریات کی فراہم اور واپس آبادکاری کی خواہشمند ہیں۔دربدر زندگی آبائی گاؤں کی بڑی یاد ستاتے ہیں۔سپرے گاؤں متاثرین کی فریاد۔


قبائلی ضلع مہمند ایلازئی پہاڑ مختلف قسم درختوں اور پودوں پر مشتمل گھنے جنگلات، مختلف نوع جنگلی حیات، خوبصورت چشموں کے ساتھ پرفضا مقام ہے۔ایلازئی پہاڑ کی شمال سمت میں موسی خیل قبیلہ کے سینکڑوں گھرانے گاؤں رحمت کور، کروندہ،موڑہ اور سپرے گاؤں میں رہائش پذیر تھے

۔جن کا ذریعہ معاش، بارڈر پار سے مختلف قسم تجارت، لکڑیوں، مال مویشیوں اور پہاڑ میں چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی پر منحصر تھے۔مگر چودہ سال پہلے نامساعد حالات سے مجبورہوکر علاقہ چھوڑ کر متاثرین کیمپوں یا دوسری شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہوگئے۔علاقے سے ہجرت کے موقع پر مذکورہ قبیلہ نے اپنے تمام گھر بار چھوڑ کر نکل گئے

۔جبکہ ایک سال قبل سپرے گاؤں کے 45 گھرانوں کے علاوہ باقی گاؤں حکومت نے کلیر قراردیکر دوبارہ آبادکاری کی اجازت دیدی۔مگر سپرے گاؤں کے متاثرین چودہ سال بعد بھی مختلف علاقوں میں دربدر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔چونکہ عیدالفطر کے آیام میں رحمت کور کی حسین مناظر مقامی سیاحوں کا خاص توجہ کا مرکز رہا۔اور سیاح قدرتی مناظر سے خوب لطف اندوز ہونے لگے۔اس موقع پر رحمت کور سے مزید اونچائی پر واقع سپرے گاؤں کے مالکان کوبھی اپنے آبائی گاؤں کو صرف دیکھنے کی اجازت دیدی گئے

۔جن کی متاثرہ مالکان چودہ سال سے بڑی بے صبری دیکھنے اورواپسی کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔سپرے گاؤں کے مالکان وزیر محمد، حمید خان، مندا خان، یار خان، امیر خان خالد ودیگر نے جو اپنے گاؤں دیکھنے کے لئے آئے تھے ۔مقامی میڈیاکو اپنے فریادبیان کرتے ہوئے کہا۔کہ ہم نے اپنے آنکھوں سے مسمار شدہ مکانات کا نظارہ کیا۔چونکہ تمام آبادی کھنڈرات اور اشیاء ضروریات خاکستر ہوچکے ہیں

۔مال مویشی ختم اور ذرخیزہ زمین بنجر اور پھلدار درختیں خشک ہو چکے ہیں۔گاؤں کے تمام راستے سیلابوں میں بہہ کر آبنوشی کی خوبصورت چشمے ملبوں سے بھرنے کے ساتھ زراعت کی تمام انتظامات برباد ہو چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ چودہ سال پہلے ہم یہاں ایک پرسکون زندگی پرفضا ماحول میں گزار رہے تھے

۔ یہاں کی رہائش پذیر موسی خیل قبیلہ نے ذریعہ معاش سمیت رہائش کے بہترین مواقع بنائے تھے۔اور مذکورہ قبیلہ اپنا زندگی قبائلی رسم ورواج کے تحت خوشحال گزارتی تھی۔مگر بدقسمتی سے آج اپنے گھروں کی بربادی کے مناظر اپنے چشموں سے دیکھ لیں۔انہوں نے فریاد کی کہ دربدر متاثر زندگی میں آبائی علاقہ کی بڑی یاد آتی ہے۔انہوں نے حکومت سے دوبارہ بنیادی ضروریات کے فراہمی اور واپس آبادکاری کا ہمدردانہ اپیل کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں