32

آرٹیکل 63 اے کی تشریح: پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج، منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے

آرٹیکل 63 اے کی تشریح: پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج، منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے

آرٹیکل 63 اے کی تشریح: پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج، منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے

فوٹو،فائل
فوٹو،فائل

 منحرف اراکین پارلیمنٹ سے متعلق آرٹیکل 63 اےکی تشریح کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے سنادیا ہے، عدالت عظمیٰ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواستیں خارج کردیں اور پی ٹی آئی منحرف ارکا ن تاحیات نا اہلی سے بچ گئے۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اےکی تشریح کے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

 فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ تین دو کی اکثریت سے فیصلہ سنایا جاتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اختلافی نوٹ لکھے جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی رائے دی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس نمٹایا جاتا ہے،  سوال تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو یا نہیں، آرٹیکل 63 اے اکیلا پڑھا نہیں جاسکتا، آرٹیکل 63 اے اور آرٹیکل 17سیاسی جماعتوں کےحقوق کے تحفظ کے لیے ہے، سیاسی جماعتوں میں استحکام لازم ہے، انحراف کینسر ہے، انحراف سیاسی جماعتوں کو غیرمستحکم اور پارلیمانی جمہوریت کو ڈی ریل بھی کرسکتاہے، سیاسی جماعتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں، سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کسی رکن کے حقوق سے بالا ہے، منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا۔

 سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کا سوال واپس  پارلیمنٹ کو بھیج دیا، چیف جسٹس نےکہا کہ  ریفرنس میں انحراف پر نااہلی کا سوال بھی پوچھا گیا، انحراف پر نااہلی کے لیے قانون سازی کا درست وقت یہی ہے، ریفرنس میں پوچھا گیا چوتھا سوال واپس بھیجا جاتا ہے، نا اہلی کی مدت پارلیمنٹ کا اختیار ہے ، پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔

جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے میں دیے گئے نتائج کافی ہیں، کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہونےکے بعد اس کی نشست خالی تصور ہوگی۔

صدر مملکت  ڈاکٹر عارف علوی نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ریفرنس21 مارچ کو سپریم کورٹ بھیجا تھا، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس سنا، جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس مظہرعالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اورجسٹس جمال مندوخیل لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں 58 دن زیر سماعت رہا، سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل سے ریفرنس کا آغاز ہوا اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے دلائل پرلارجربینچ میں سماعت مکمل ہوئی، سیاسی جماعتوں کے وکلا نے بھی صدارتی ریفرنس میں دلائل دیے، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر 20 سماعتوں کے بعد رائے محفوظ کی۔

صدارتی ریفرنس

خیال رہےکہ سابقہ وفاقی حکومت نے 21 مارچ  2022 کو منحرف اراکین کے معاملے پر آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدر مملکت کا منظور کردہ ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔

 ریفرنس میں سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بارے میں رائے لی گئی تھی۔

صدارتی ریفرنس کی کاپی کے مطابق 8 صفحات پر مشتمل ریفرنس میں 21 پیراگراف  تھے۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے میں درج نہیں کہ ڈیفیکٹ کرنے والا رکن کتنے عرصہ کے لیے نااہل ہو گا، وفاداری تبدیل کرنے پر آرٹیکل 62 ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہونی چاہیے، ایسے ارکان پر ہمیشہ کے لیے پارلیمنٹ کے دروازے بند ہوں۔

صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ووٹ خریداری کے کلچر کو روکنے کے لیے 63 اے اور 62 ایف کی تشریح کی جائے اور منحرف ارکان کا ووٹ متنازع سمجھا جائے۔

صدارتی ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نااہلی کا فیصلہ ہونے تک منحرف ووٹ گنتی میں شمار نہ کیا جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں