30

بچوں کے تحفظ کے لیے والدین اور اساتذہ سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

بچوں کے تحفظ کے لیے والدین اور اساتذہ سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

ہارون آباد (تحصیل رپورٹر) بچوں کے تحفظ کے لیے والدین اور اساتذہ سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بچوں کے تحفظ پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے پلیٹ فارم چلڈرن ایڈوکسی نیٹ ورک نے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کےلئے حکومتی سطح پر والدین، اساتذہ مذہبی رہنماؤں اور کمیونٹی کے فعال افراد کی تربیت کے لئے جامع پروگرامز چلانے کی تجویز دی۔

یہ تجویز گزشتہ روز بچوں کو تشدد بدسلوکی استحصال اور نقصان دہ رسومات سے بچانے کے لئے والدین اور کمیونٹی کے دیگر ذمہ دار افراد کے ساتھ منعقدہ تربیتی نشست میں دی گئی۔ تربیتی نشست کا انعقاد چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کی رکن تنظیم سائبان نے سرچ فارجسٹس اور یونیسیف پاکستان کے اشتراک سے کیا تھا۔ چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک کے ضلعی فوکل پرسن مقبول انجم نے تربیتی سیشن کے شرکاء سے خطاب کے دوران بچوں کے ساتھ دوستانہ روابط کے فروغ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا

کے بچوں اور والدین کے مابین دوستانہ رویے کے نتیجے میں بچے اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی نامناسب رویے یا حرکت کی فوری اطلاع والدین کو دے سکتے ہیں۔ جس سے بچوں کے تشدد بدسلوکی اور استحصال کا نشانہ بننے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ تشدد سے پاک گھریلو ماحول بچوں کے اعتماد میں اضافےکا باعث بنتا ہے اور بچے اپنے مسائل پر اپنے والدین سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے

۔چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے والدین کو بتایا کہ بچوں کو آن لائن پیش آنے والے خطرات سے بچانے کے لیے بچوں کی انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے محفوظ استعمال پر تربیت کی جائے بچوں کو بتایا جائے کہ سوشل میڈیا پر اجنبی افراد کے ساتھ دوستی میں احتیاط برتیں، اپنی تصاویر اور ذاتی معلومات ہرگز کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی حفاظت کے لیے بچے مضبوط پاس ورڈ کا انتخاب کریں۔

دوستوں کے اسٹیٹس پر کمنٹس کرتے ہوئے ذمہ داری کا ثبوت دیں، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کا حصہ ہرگز نہ بنیں۔ والدین بچوں کو اس بات کا اعتماد دیں کہ اگر کوئی بھی فرد انہیں آن لائن استحصال کا نشانہ بنانے کی کوشش کرے تو بچے اس بات کی اطلاع اپنے والدین بڑے بہن بھائی یا اساتذہ کو دیں۔ شرکاء کو مزید بتایا گیا کہ مشکل صورتحال میں FIA کے ریجنل دفاتر میں قائم سائبر کرائم یونٹ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔

چلڈرن ایڈوکیسی نیٹ ورک نے بچوں کی کم عمری میں ہونے والی شادیوں کے بچوں کی ذات پر ممکنہ اثرات پر بھی والدین سے تبادلہ خیال کیا۔ تربیتی سیشن کے شرکاء کو بتایا گیا کہ پنجاب میں قانون کے مطابق لڑکے کے لئے شادی کی عمر کم از کم اٹھاراں سال لڑکی کے لئے سولہ سال ہے۔ کم عمری بچے شادی جیسی اہم سماجی ذمہ داری احسن طریقے سے سر انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے خوشگوار زندگی بسر کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں