مون سون کی تباہی کن بارشیں ، سیلاب اور سندھو ، بادشاہ دریا
امین فاروقی
حالیہ 2022 میں ہونے والی مون سون بارشیں جو انتہائ تباہ کن رہیں اور وقت سے زیادہ برسیں ، نے سیلابی صورت اختیار کی سندھ کو 75 فیصد نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے ایک تو سندھ میں ہونے والی بارشوں سے پیدا ہونے والا سیلاب ، دوسری طرف ملک کے بالائی علاقوں سے آنے والا سیلابی ریلا نے سندھ کو بری طرح متاثر کئے رکھا ہے سندھ جو پاکستان کا اہم بنیادی صوبہ ہے اور قدرتی وسائل سے مالامال ہوکر وفاق کو معاشی مظبوط کرتا رہتا ہے آج خستہ حالی کا شکار ہے ، سندھ کی زمینیں اس پر لگی زرعات تبہاہ ہوچکی ہے ، ہزاروں گاؤں سمیت درجنوں شہر ڈوب چکے ہیں ، مال مویشی سیلاب برد ہوچکے
بچہ کچہ سندھ اور متاثرہ سندھ کی عوام اس وقت کھلے آسمان تلے زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں ٹھٹھہ سے آگے ٹنڈو الہ یار سے شروع ہوکر لاڑکانہ ، دادو ، سیہون ، میہڑ ، نواب شاہ ، گمبٹ ، خیرپور اور سکھر سمیت کچے کے علاقے مکمل ڈوبے ہوئے ہیں سندھ کی تخت گاہ اور دل کراچی اس وقت اپنا انسانی فرض نبھا رہا ہے بیرون ممالک سمیت ملک بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے ، لیکن کراچی کی عوام امدادی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہے ، اس وقت صورتحال 2010 سے ابتر ہوچکی ہے لوگ اپنے مال مویشیوں کو مچھر دانیوں میں محفوظ کررہے ہیں اور خود کھلے آسمان تلے رہنے کو مجبور ہیں
، خیمے اور مچھر دانیوں کی قلت ہے ایسے میں کچھ پیداگیر راہوں پر بیٹھ کر حقداروں کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں ، کیہں کیہں لوٹ کھسوٹ کے آکے دکے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اس وقت پولیس ، رینجرز اور فوج کی سیکیورٹی میں مختلف سماجی فلاح تنظیموں کا امدادی سامان پہنچ رہا ہے مذہبی طبقے نے دیگر سےسبقت حاصل کرلی ہے ، اس سیلاب تباہی نے ریل پٹریوں سمیت نیشنل ہائی وے ، موٹر وے اور سپر ہائی وے کو مکمل غائب کردیا ہے زمینی رابطے ختم ہوچکے ہیں حکومت اور انتظامیہ سابقہ روش کے تحت چل رہی ہے
جسکی وجہ انتظامات نہ کرنا ہے اس حوالہ سے عوام کا کہنا ہیکہ حکومت ہمیشہ بیرونی امداد کو دیکھتی ہے اور بیرونی امداد والے بھی ہر دفعہ امداد ہی بھیج دیتے ہیں آج تک عالمی سطح پر آفتوں سیلابی ریلوں کے حوالہ سے کوئ سد باب نہ ہوسکا ہے بس ہر ایک کی نظر امداد پر ہوتی ہے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 2005 کا زلزلہ اور 2010 کے سیلاب کو دیکھ کر عالمی ادارے حرکت میں آتے اور اس تبہاہ کاری کا سدباب کرتے مزید آگے کے لئے حفاظتی انتظامات رکھتے لیکن یہاں لینے اور دینے والے امداد پر خوش ہیں
جبکہ بیچ میں لاکھوں متاثرین پس رہے ہیں ، سیلاب کا لاکھوں کیوسک پانی تباہی مچاتا ہوا سمندر برد ہونے کو جارہا ہے جسے سندھ کو فائدہ حاصل نہ ہوسکا اگر کوئ حکمت عملی رکھی جاتی سندھ میں مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جاتے اور اسی سیلابی پانی کو سندھ سے بڑھے ایراضی رکھنے والا تھر کیطرف رخ کرایا جاتا تو آج تھر کا کونہ کونہ پانی سے سیراب ہوتا ، پورے سندھ کو آگے کئیں سالوں تک پانی اسٹور ملتا لیکن ضد انا غفلت اور بے توجہگی جو حکمرانوں کا شیوا رہی نے سندھ کو ہمیشہ پیاسا دکھا یا ڈبویا ، آج سندھ میں سیلاب کی بے رحمانہ موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہیں جہاں کبھی ریت اڑتی تھی
پانی ٹھرانے کے ذرائع بناتی تھر سمیت سندھ کا آخری حصہ بدین ، ٹھٹھہ اور کیٹی بندر کو پانی پہنچتا تو سندھ بھی خیبرپختونخواہ اور پنجاب کیطرح سیراب ، سرسبز و شاداب ہوتا اور پھر سندھ بلوچستان کو بھی پانی دینے کا ذریعہ بنتا اللہ کرے کے حکمرانوں کو سمجھ آئے انکا ضمیر جاگے اور یہ سندھ بلوچستان کو اسکے حصے کا پانی دے سکے