ر سبھانی ڈ اھری٬ عمراہ سمون٬ ایس جی ایس ٹی کی مرکزی صدر ساجدہ پرہیاڑ٬ کائنات ڈ اہری اور سورٹھ مگنہار کی حیدرآباد پریس کلب میں کی ہوئی
حیدرآباد (پ_ر) سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر سبھانی ڈ اھری٬ عمراہ سمون٬ ماھ نور ملاح٬ سندھو ملاح٬ ایس جی ایس ٹی کی مرکزی صدر ساجدہ پرہیاڑ٬ کائنات ڈ اہری اور سورٹھ مگنہار کی حیدرآباد پریس کلب میں کی ہوئی پریس کانفرنس کا مکمل متن۔
معزز صحافی حضرات
آج ہم آپ کے سامنے ان لاکھوں غریبوں، کسانوں، مزدوروں، عورتوں اور بچوں کی دردناک فریاد لے کر آئے ہیں جو پہلے ہی جاگیرداری کی نمائندگی کرنے والے حکمرانوں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو چکے ہیں، لوٹ مار کا شکار ہیں اور حالیہ سیلاب میں جان بوجھ کر ڈ بوئیگئے ہیں۔جو ناقابل بیان مسائل کے شکار ہیں.
صحافی بھائیو! آپ جانتے ہیں کہ وڈیروں کی زمینوں کو بچانے کے لیے جھڈو اور دوسرے قصبوں اور گائوں کو جان بوجھ کر ڈبو دیا گیا۔ منچھر کا پانی دریا میں جانے دینے کی بجائے ایم این وی ڈ رین اور دیگر نالوں، شاخوں، نہروں اور کٹ لگایا گیا جس کہ باعث میہڑ، دادو اور جوہی سمیت کے این شاہ کے سیکڑوں دیہاتوں میں سیلاب آ گیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔
دادو، قمبر، شہداد کوٹ اور دیگر اضلاع کو تباہ و برباد کرنے کے بعد منچھر کو غیر ضروری اور بے وقت کٹ لگا کر بھان سعید آباد سمیت ضلع جامشورو کے سینکڑوں دیہاتوں اور قصبوں کو سیلاب میں ڈبو کر سندھ کے باقی ماندہ علاقوں کے لوگوں کو بھی بے گھر کر دیا گیا۔ سندھ کے سیکڑوں دیہات کو سیلاب کی لپیٹ میں دینے اور لاکھوں افراد کو ڈبونے کے بعد سندھ حکومت نے لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ ریسکیو کے نام پر اربوں روپے کا غبن کیا گیا ہے۔ ریسکیو مرحلے کے دوران،
این ڈی ایم اے عملا مکمل طور پر غائب رہا۔ پاک بحریہ نے 14 افراد کی گنجائش والی کشتی میں بحریہ کے 12 اہلکاروں اور دو افراد کو بچانے کے نام پر لاکھوں روپے کا پٹرول بھی ضائع کیا۔ ہیلی کاپٹروں پر امداد کے نام پر سینکڑوں لوگوں کے سامنے آٹے کہ دو تھیلے پھینک کر، کروڑوں روپے کا پٹرول جلانے اور آٹے کہ دو تھیلو پر سینکڑوں لوگوں کو ذلیل کرنے والی غیر جمہوری قوتیں عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہیں۔ جن کو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس میں دیکھا جا سکتا ہے۔
محترم صحافی بھائیو!
ملک کے غیر جمہوری حکمرانوں اور کرتا دھرتائوں نے رلیف کے نام پر عوام کی تذلیل کی ہے۔ سیلاب کو آئے تقریباً ایک ماہ گزر چکا ہے لیکن لاکھوں لوگ اب بھی سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں اور بھوک اور مہلک وبائی امراض سے مر رہے ہیں۔ اپنے گھر بار چھوڑ چھاڑ کر کراچی، حیدرآباد، جامشورو، سکھر، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں پہنچنے والے لوگوں کے لیے حکومت سندھ نے کوئی اقدامات نہیں لیے۔ کراچی اور حیدرآباد میں ہزاروں سرکاری فلیٹس خالی پڑے ہیں لیکن سندھ حکومت نے سیلاب کے دو چار ماہ سے ان خالی سرکاری فلیٹس اور سرکاری کوارٹرز میں سیلاب متاثرین کو رہانےکی بجائے انہیں سڑکوں اور راستوں پر کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔
سرکاری زمینوں پر اپنے معصوم بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگوں کو خیمے اور خوراک فراہم کرنے کی بجائے حکومت سندھ نے ان پر قبضوں کی ایف آئے آرز کاٹ کر حکومت سندھ نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ سندھ میں اسرائیلی سلطنت قائم ہو چکی ہے، سندھی عوام اب فلسطینیوں کی طرح اپنی ہی سرزمین پر بی یارومددگار اور غیر بنائے گئے ہیں۔ سیلاب متاثرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے والی ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ ٹاؤن کو غیر قانونی طور پر زمینیں الاٹ کی تھی جسے سپریم کورٹ نے 12 مئی 2018 کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی دراصل سندھ میں اسرائیل کی تخلیق کی ایک نئی اتھارٹی ہے جسے سندھ پولیس اور بحریہ ٹاؤن کے ہتھیاربندوں کی شکل میں اسرائیلی فوج دی گئی ہے۔
محترم صحافی بھائیو!
اس وقت آپ کو سندھ دھرتی کے وارث لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں اور راستوں پر کھلے آسمان تلے٬ تپتی زمین اور گرج چمک کے ساتھ برستی بارش میں وبائی امراض اور بھوک سے مرتے دیکھنے میں آئیں گے۔ ہم سندھیانی تحریک، عوامی تحریک اور رسول بخش پلیجو فاؤنڈیشن کی جانب سے متاثرین کے گھروں میں مقیم متاثرین کے لیے مسلسل میڈیکل کیمپ کہ سلسلے میں جا رہے ہیں، ہم وہاں گئے
جہاں لوگوں نے بتایا کہ ہمیں یہاں حکومت سے کچھ نہیں ملتا۔ ہم سیوریج کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ سیلانی والے صبح و شام چاول کھانے کو دیتے ہیں، روزانہ غیر معیاری کھانا کھانے اور سیوریج کا پانی پینے کی وجہ سے یہاں موجود تمام لوگ بیمار ہو چکے ہیں، وبائی امراض بھی پھیل چکے ہیں، ڈاکٹرز بھی دستیاب نہیں، شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ ادویات کی قلت جس کی وجہ سے اس کیمپ سے روزانہ ایک سے دو لاشوں کا نکلنا معمول بن گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ہم سب بھی تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔
صحافی بھائیو!
دراصل تمام کیمپوں کی صورتحال مذکور ہ کئمپ جیسی ہے لیکن بعض مقامات پر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور چونکا دینے والی صورتحال ہے۔
محترم صحافی بھائیو!
سڑکوں اور راستوں پر اور اسکولوں میں قائم کیمپوں پر لوگوں کی تعداد کے حصاب سے واش رومز کی شدید کمی ہے۔ واش رومز کی صفائی نہیں، سڑکوں پر بیٹھی مائیں اور نوجوان لڑکیاں بی انتہا اذیت کا سامنا کر رہی ہیں۔
صحافی بھائیو!
سندھیانی تحریک، عوامی تحریک حسب حال سیلاب متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ رسول بخش پلیجو فاؤنڈیشن سیلاب زدگان کے علاج اور ادویات کی فراہمی کے لیے مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپس کا انعقاد کر رہی ہے۔ ہم لوگوں کو راشن دے رہے ہیں، لوگوں کو کیمپوں میں رکھ کر ان کے کھانے کا بندوبست کر رہے ہیں، جو دراصل سندھ حکومت کا کام ہے، جو عوامی تحریک اور سندھ کے بہت سے دوسرے خیرخواہاں کر رہے ہیں۔ عوامی تحریک اور سندھ کے کئی دوسرے خیرخواہاں اپنے محدود وسائل سے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔
ہم سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور این ڈی ایم اے کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ دوسرے ممالک سے ملنے والی امداد کو زیادہ دیر تک نہیں چھپا سکتے۔ سندھ کے عوام آپ کے خلاف پرامن جمہوری جدوجہد میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔
پیارے صحافی بھائیو
ہم یہ مطالبات کرتی ہیں کہ۔
سندھ کو ڈبونے والوں کے خلاف سپریم کورٹ کے ججز، سندھ کے خیرخواہان اور عالمی معیار کے پانی، آبپاشی اور ماحولیاتی ماہرین پر مشتمل کمیشن بناکر لاکھوں افراد کو بیگھر کرنے کی زمیدار غیر جمہوری قوتوں کو عبرتناک سزا دی جائے
گزشتہ کئی سالوں سے بین الاقوامی ماحولیاتی ماہرین کی بڑے بڑے سیلابوں کی پیشگوئیوں کے باوجود سیلاب سے نمٹنے کے لیے ضروری انتظامات کرنے کے بجائے ڈیم بنا کر چھوٹے سیلابوں کو خطرناک اور خونخوار سیلاب میں تبدیل کر نے والی ملک کی غیر جمہوری قوتوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔
ماحول کو آلودہ کرنے والے ممالک کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور دیگر عالمی فورمز پر احتجاج ریکارڈ کرایا جائے، پاکستان خصوصاً سندھ کو ماحول کو آلودہ کرنے والے ممالک سے معاوضہ دلایا جائے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو دوسرے ممالک کے جرائم کی سزا دی جا رہی ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی وکالت کرنے کے بجائے ملک کے وزیر اعظم اپنی آفشور کمپنیوں کو بچانے کے لئے جیسے ’ماحولیاتی تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں‘ جیسے بیانات دے رہے ہیں۔ ایک طرف تو پوری دنیا کے ممالک نے ملک کے پالیسی سازوں کا مذاق اڑایا ہے کہ یہ کیسےاحمق اور جاہل پالیسی ساز ہیں جو اپنے وزیر اعظم سے ملکی مفادات کے خلاف بیانات دلوا رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر ملک کے عوام کے ساتھ غداری کی گئی ہے۔
ایف بی ڈیم، ایم این وی ڈرین، سپریو بند اور تمام بندوں، اور نہرون کو لگنے والے کٹ جلد از جلد بند کیے جائیں، شہروں میں کھڑا پانی بھی فوری طور پر نیکال کیا جائے۔
دریائے ہاکڑو اور پران سمیت پانی کے قدرتی راستوں پر قبضہ شدہ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کرکے پانی کا قدرتی بہاؤ بحال کیا جائے۔
سیلاب لا کر اور کالاباغ ڈیم بنا کر سندھ کو تباہ و برباد کرنے کی سازشیں کرنے والی غیر جمہوری قوتوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
متاثرین کے لئے ملنے والے فنڈ ز میں کرپشن کرکے سیلاب زدگان کو ریلیف نہ دینے والے تمام ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے خلاف کرپشن کے مقدمات درج کیے جائیں۔
کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے دیگر شہروں میں سیلاب متاثرین کے لیے کیمپ قائم کیے جائیں اور جن لوگوں نے خود کیمپ لگائے ہیں، ان کے خلاف قبضے کے مقدمات درج کرنے کے بجائے ان کے کیمپوں کو سرکاری طور پر کئمپ ڈ کلیئر کرکے وہاں کھانے پینے کا انتظام کیا جائے۔اس کے علاوہ صفائی کا انتظام کیا جائے۔ پانی، مچھر دانی، بستر، دوائیں، واش روم کا بھی بندوبست کیا جائے۔
سڑکوں پر اور ہر کیمپ میں بیٹھے افراد کی طبی امداد کے لیے موبائل ہسپتال بنائے جائیں اور جن کی حالت زیادہ تشویشناک ہو ان کو بڑے ہسپتالوں تک پہنچانے کا انتظام حکومت کی طرف سے کیا جائے۔
لوگوں کو وبائی امراض سے بچانے کے لیے مچھر مار سپرے اور دیگر ضروری اقدامات کیے جائیں۔
سیلابی پانی سے اپنے گھر بار چھوڑنے والے اور اپنی جان بچا کر نکلنے والے لوگوں کے تمام کاغذات بھی بہہ گئے ہیں، لہٰذا متعلقہ اداروں پر لازم ہے کہ وہ این آئی سی، تعلیمی سرٹیفکیٹ، مکانات، کھیتوں اور ملازمتوں کے لیے ضروری دستاویزات مفت بنا کر دیں۔
سندھ کے تمام تعلیمی اداروں کی فیسیں معاف کی جائیں اور طلباء کو فلڈ ریلیف کے تحت لیپ ٹاپ اور مطلوبہ کتابیں دی جائیں۔
جو لوگ اب بھی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں فوری طور پر ریسکیو کیا جائے اور مناسب خوراک فراہم کی جائے، ٹینٹ، مچھر دانی، صحت کی سہولیات اور زندہ رہنے کے لیے دیگر ضروری اشیاء ہنگامی بنیادوں پر فراہم کی جائیں۔
لاکھوں روپے مالیت کا ہیلی کاپٹر کا ایندھن جلا کر ڈیڑھ سو لوگوں میں دو راشن بیگز پھینک کر لوگوں کو آپس میں لڑانے کا غیر انسانی اور غیر اخلاقی کھیل کھیلنے والی غیر جمہوری قوتوں کے ذریعے ٬دوسرے ممالک سے ملنے ملنے والا راشن۔ تقسیم کرنے کی بجائے سویلین تنظیموں کے ذریعے میڈ یا کی موجودگی میں راشن تقسیم کیا جائے۔ جن متاثرین کو راشن ملا ان کے نام اور دوسرے ممالک سے ملنے والے راشن کی تفصیلات عوام کے سامنے ظاہر کی جائیں، تاکہ متاثریں کی امداد برہان چانڈ یو، شرجیل میمن، جام خان شورو، ملک اسد سکندر جیسے وزیروں جاگیرداروں اور بھوتاروں کے بنگلوں کے بجاء شائستہ انداز میں متاثرین تک پہنچ سکے۔
این ڈی ایم اے کو بیرونی ممالک سے بڑی رقم کی امداد ملی ہے لیکن وہ اب تک متاثرین کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی، این ڈی ایم اے کے اعلیٰ حکام کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
سیلاب زدگان اور بارش کے متاثرین کے ہر خاندان کو گھر بنانے کے لیے 50 لاکھ روپے دیے جائیں۔
کسانوں اور کاشتکاروں کی زیر آب آنے والی فصلوں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔
جن افراد کے مویشی ڈ وب کر یا جو وبائی امراض کی وجہ سے مر گئے ہیں، ان کے مویشیوں کا معاوضہ ادا کیا جائے۔
سیلابی پانی میں ڈوبنے یا وبائی امراض سے مرنے والوں کے لواحقین کو کم از کم ایک کروڑ روپے اور بارشوں اور سیلاب کے دوران گھروں پر چڑھنے اور کرنٹ لگنے سے زخمی ہونے والوں کو 30 لاکھ روپے دئیے جائیں۔
حمل ضائع ہونے والی خواتین کو لاکھ روپے دیے جائیں۔