پنجاب اور پنجابی کے نام پر دھوکہ
قاضی طارق عزیز/انقلاب
پنجاب میرا عشق ہے اور اس کی ثقافت میری روح ۔اِن پانچ دریائوں کی مٹی مجھے اس لیے عزیز ہے کہ یہاں میرے خاندان کے بزرگ دفن ہیں،کچھ میاںچنوں میں اور کچھ جالندھر کے گمنام قبرستانوںمیں جہاں سے یہ لوگ ہجرت کرکے آئے تھے۔میرے خاندان نے پنجاب کی تقسیم کی قیمت اپنے لہو سے ادا کی ہے
۔میرے بڑوں نے جالندھر سے خانیوال تک کافاصلہ بڑی اذیت میں طے کیا۔ہجرت کا دکھ، پنجاب کی تقسیم کا المیہ میری روح کے وہ زخم ہیں جو مجھے ہر جگہ جذباتی کردیتے ہیں۔کوئی پنجاب کا نام لے کر مجھے کسی بھی حد تک بلیک میل کر سکتا ہے اور اگر کوئی اس دھرتی کو گالی دے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔۔
پچھلے کچھ روز سے کراچی،لاہور ،اسلام آباد،ملتان اور رحیم یار خان جیسے شہروں میںہوں۔ظاہر ہے پنجابی ہوں تو میرا حلقہ احباب بھی ایسے ہی لوگوں سے عبارت ہوگا،سو اِن شہروں میں بہت سے پنجابی کمٹڈ دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ سنا ہے لاہور میں کوئی پنجابی کانفرنس ہورہی ہے جسے عارف لوہاراورسہیل احمدجیسے لوگ کروا رہے ہیں جبکہ لاہور پریس کلب ،حکومتِ پاکستان سمیت دیگر ادارے بھی اس کی میزبانی کررہے ہیں۔
میرے لئے بڑی خوشی کی بات تھی کہ چلیے خدا خدا کرکے کسی کو تو خیال آیا کہ پنجابی زبان اور کلچر کی آبیاری کے لیے بڑی کانفرنس کروائے۔میں ملتان میں تھا تو امریکا میں رہنے والے اپنے محترم بزرگ چوہدری عنصر ملہی کافون آیا،انہوں نے بھی مجھ سے یہی سوال کیا کہ سنا ہے لاہور میں ایک بڑی کانفرنس ہو رہی ہے جس کے لیے دنیا بھر سے فنڈریزنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ملہی صاحب کی بات کے دو پہلو تھے،پہلا لاہور میں کانفرنس ہو رہی ہے اور دوسرا جو انتہائی تشویشنا ک تھا،
کہ اس سلسلے میں کوئی فنڈ ریزنگ بھی کی جارہی ہے۔میں نے سوچا ہو سکتا ہے سہیل احمد اور عارف لوہار جیسے بڑے فن کاروں نے کانفرنس کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا فنڈ بھی قائم کیا ہو جو ہمارے مستحق فن کاروں کی مدد کے لیے ہو۔اس کے باوجود میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ایک جانب تو حکومت پنجاب ،جو خود ایسی کانفرنس پر کروڑوں خرچ کر سکتی ہے اور کرتی بھی آئی ہے
۔دوسری جانب سہیل احمد جیسا فن کار ،جو اپنی جیب سے ہر ماہ لاکھوں روپے مستحقین کی خدمت کیلئے وقف رکھتا ہے۔اس کے باوجود فنڈ ریزنگ؟کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔میں نے سوشل میڈیا پر تلاش کیا تو مجھے ایسی کسی کانفرنس بارے کچھ نہیںملا۔لاہور پہنچ کر سب سے پہلے محکمہ اطلاعات کے افسران سے براہِ راست ملاقات کی اور پوچھا کہ کیا پرویز الٰہی صاحب جنوری یا فروری میں کوئی پنجابی کانفرنس کروا رہے
ہیںیا پھر اُن کے شیڈول میں ایسے کسی پروگرام میں شرکت شامل ہے؟جواب نفی میں ملا۔گورنر ہائوس سے رابطہ کیا تو وہاں سے بھی یہی معلوم ہوا کہ ایسی کسی کانفرنس میں اگر گورنر صاحب کا نام لکھا گیا ہے تو اُن کی اجازت کے بغیر لکھا گیا ہے۔اب اگلا معاملہ تھا میرے اپنے گھر، یعنی لاہور پریس کلب کا۔میں نے سب سے پہلے صدر لاہور پریس کلب جناب اعظم چوہدری کو فون کیا تو اُنہوں نے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے
کہاکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم لوگ کسی ایسے معاملے میں شامل ہوں جس میں پنجابی یا کسی دوسروی زبان کے حوالے سے فنڈ ریزنگ کی جارہی ہو۔انہوں نے تصدیق کی کہ اگر کسی نے لاہور پریس کلب کا نام استعمال کیا ہے تو ہماری اجازت کے بغیر کیا ہے،ہمارا ایسے کسی معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ان کے بعد میں نے سیکرٹری لاہور پریس کلب جناب عبدالمجید ساجد سے بات کی،وہ بھی سن کر حیران رہ گئے
کہ ماجرا کیا ہے۔اسی دوران مجھے کسی دوست کے ریفرنس سے اس نام نہاد پنجابی کانفرنس کی پرپوزل یادعوت نامہ بھی مل گیا۔میں جوں جوں دیکھتا گیا ،حیرت بڑھتی گئی۔متروکہ وقف املاک بورڈ اور پلاک سمیت جانے کون کون سے اداروںکا نام لکھ دیا گیا تھا،میں نے بعد ازاں ان سے بھی تصدیق کی لیکن جواب نفی میں ملا۔اس کے بعد میںنے گوگل پر دیکھا توکرائوڈ فنڈر نامی ایک غیر ملکی ویب سائٹ کے ذریعے فنڈز اکٹھا کرنے کی تصدیق ہوگئی۔پنجابی پرچار نامی اس تنظیم نے اس غیر ملکی پیج پر عارف لوہار کا پیغام بھی لگا رکھا ہے
جس میں وہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عارف لوہار جیسا فن کار اس واردارت کے بارے میں جانتا ہے ؟کہ اُس کے پیغام کی بنیاد پر کوئی تنظیم ایسی کانفرنس کے لیے فنڈز اکٹھے کررہی ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں؟۔۔۔اب آگے چلیے،میں نے فلیٹیز ہوٹل رابطہ کیا جہاں یہ کانفرنس 18فروری کو ہونا طے پایا ہے ۔جس کا افتتاح جناب وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو کرنا ہے
۔فلیٹیز ہوٹل کی انتظامیہ سے معلوم ہوا کہ جناب یہاں ایسی کسی کانفرنس کی کوئی بکنگ نہیں ،اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی رابطہ کیا گیا ہے۔یعنی ٹھگوں اور نوسر بازوں کے اس ٹولے نے فلیٹیز کو بکنگ کے لیے ایک عرضی تک نہیں دی لیکن نام بڑے دھڑلے سے درج کروا دیا گیااور دیہاڑی پوری دنیا سے لگائی جارہی ہے۔۔۔
سارے کا سارا معاملہ ہوا میں،کسی بھی شے کاکہیں کوئی وجود ہی نہیں۔پنجابی زبان کے نام پر ایسی دیہاڑی لگائی جارہی ہے،جس میں ریاست،ریاستی اداروں اور اُن فن کاروں کا نام استعمال کیا جارہا ہے جو پاکستان کی پہچان بھی ہیں اور مان بھی۔اب سوال یہ ہے کہ ایسی انٹرنیشنل کانفرنس ،جس کے نام پر فنڈز اکٹھا کیا جارہا ہے۔
۔اس سے بڑھ کردھوکہ اُن لوگوں سے ہے جن کا نام یہ لوگ دعوت نامے میں لکھ رہے ہیں۔میں اپنے غیر ملکی پنجابی بھائیوں سے بھی گزارش کروں گا کہ ایسے کسی نوسر باز کے دھوکے میں نہ آئیے گا جو اپنی دیہاڑی کے چکر میں پنجاب اور پنجاب کے اداروں یا فن کاروں کا نام استعمال کر رہا ہو۔