Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

ٹانک میں صحافیوں کے لیے پولیو آگاہی ورکشاپ کا انعقاد

ٹانک میں صحافیوں کے لیے پولیو آگاہی ورکشاپ کا انعقاد

ٹانک (نثاربیٹنی سے )اپنے مطالبات کو بچوں کی زندگی سے نہ جوڑیں ہر پولیو مہم میں اپنے بچوں کو دوقطرے پولیو کے پلا کر اس بیماری کو جڑ سے ختم کرانے میں مدد دیں۔ افغانستان اور پاکستان دنیا میں بد قسمتی سے یہ دو ممالک میں پولیو کا وائرس ابھی تک موجود ہے، پاکستان میں اس وقت سب سے خطرناک پاک افغان بارڈر سے ملحقہ علاقے ہیں جہاں لاکھوں بچوں کو پولیو کے وائرس کے خطرے کا سامناہے حال ہی میں بنوں میں پولیو وائرس کا کیس سامنے آیا ، پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کے لئے ہم سب نے اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ ہم ائندہ پولیو مہمات میں سو فیصد بچوں تک پہنچ ہو سکے

، دنیا کے سینکڑوں ممالک نے پولیو کو اپنے ملکوں سے مکمل ختم کرالیا ہے, ان خیالات کا اظہار طارق حبیب کوارڈنیٹر ساؤتھ ریجن اور ڈاکٹر طفیل شیرانی ای پی آئئ کوارڈینیٹر ٹانک نے ایک روزہ پولیو کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر آفس میں منعقدہ ضلع ٹانک و جنوبی وزیرستان اپر کے صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیویٹس کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا

۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر آفریدی،اسرار عالم ڈسٹرکٹ ہیلتھ کمیونیکشن آفیسر،نئیر زمان ڈیٹا سپورٹ آفیسر،ڈاکٹر طفیل شیرانی ای پی آئی کوارڈینیٹر سمیت ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ٹانک بھی موجود تھے۔طارق حبیب اور ڈاکٹر طفیل شیرانی نے شرکا کو بتایا کہ اگر ہم معمول کے ٹیکہ جات اور ایمونائزیشن کو اہمیت دیتے تو ہم کب کے پولیو کو ملک سے ختم کر چکے ہوتے معمول کے ایمونائزیشن سے پولیو کے علاوہ ہم اپنے بچوں کو بارہ دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی بچا سکتے ہیں،

دنیا کی نظریں اس وقت ہم پر اس لئے لگی ہوئی ہیں کہ یہاں پولیو کا وائرس بھی موجود ہے اور افغانستان میں تین اور پاکستان میں ایک پولیو کا تازہ کیس سامنے ایا ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام اپنے سوشل مسئلوں کے حل کو پولیو مہمات سے مشروط کر دیتے ہیں جو سراسر غلط ہے یہ لوگ اپنے بچوں کی زندگی داؤ پر لگاتے ہیں، ہماری پوری کوشش ہے کہ ہم میڈیا کے ذریعے والدین تک یہ پیغام پہنچائیں

کہ وہ اپنے بچوں کو ہر صورت پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلائیں کیونکہ خدانخواستہ اگر ایک بار بچے کو پولیو کے وائرس نے متاثر کیا تو ساری عمر کے لئے اپکا بچہ معذور ہوگا، دوسرے کا بوجھ اٹھانے والا خود معاشرے اور خاندان پر بوجھ ہوگا۔صرف بروقت ٹیکے لگا کر ہی ہم اس موذی مرض پر قابو پاسکتے ہیں اور خصوصا میڈیا کو اس حوالے سے عوام کی ذہن سازی کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

Exit mobile version