وسیب کے اہل قلم کو حقوق دیئے جائیں،ظہور دھریجہ
کوٹ ادو(شہزادافق)وسیب کے اہل قلم کو حقوق دیئے جائیں۔ پاکستان کے استحکام اور صوبہ سرائیکستان کے قیام کیلئے اہل قلم کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان خیالات کا اظہار چیئرمین سرائیکستان قومی کونسل ظہور دھریجہ اور مرکزی صدر پاکستان سرائیکی رائٹرز فورم عبدالرزاق زاہد نے کوٹ ادو میں پاکستان سرائیکی رائٹرز فورم اینڈ سرائیکی شعراء حقوق کونسل کے زیر اہتمام دوسری سالانہ پاکستان اہل قلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کلب کوٹ ادو میں ہونیوالی کانفرنس سے سرائیکی رہنما ملک جاوید چنڑ، شریف خان لاشاری، ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ، مشتاق سبقت، خادم حسین مخفی،
سید علی تنہاء، مشتاق احمد رحیمی و دیگر نے خطاب کیا۔ پروگرام کے چیف آرگنائزر عبدالرزاق زاہد، آرگنائزر پروفیسر اشرف مشکور، دیوانہ بلوچ اور ظفر ڈاہا تھے۔ اس موقع پر فیض بلوچ، پروفیسر اشرف مشکور، شیخ محمد عثمان، شعور ناصر، رفیق ساگر، ظفر ڈاہا، نادر لاشاری، دیوانہ بلوچ، شبیر شرر، نذر فرید بودلہ، کاشف ندیم، اشرف حسین باقر، مظہر بابر، واجد لدانی، منور سراج، شفیق شجراء کمسن، زبیر احمد زبیر، حیدر شیراز، شہزاد فیض، اقبال ناصر، شوکت عاجز، فہمیدہ اسلم، یاسر گیلانی، عارف گلشن، افتخار عارف، ریاض باکھری، عمران شاکر مہروی، مشاہد حسین مشاہد، اشرف پٹھانے خان، سلیم ساغر، مبشر نون،
مختیار مخلص، اظہر فاروق، شہزاد ڈاہا، محسن عباس، حسنین حسنی، خضر گورمانی، رضوان قلندری، خالد خان عباسی، وقاص گورمانی، رانا محمد اسلم، یوسف مہتاب، محمد لقمان، لطیف خان قلندرانی، رمضان قیصر مشوری، عارف گیلانی، قیصر نواز بھٹہ، ملک نادر کھر اور رمضان ساحل نے اپنا کلام سنایا۔ چیئرمین سرائیکستان قومی کونسل ظہور دھریجہ نے کہا کہ سرائیکی وسیب کے اہل قلم دنیا کا بہترین ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ وسیب کے نوجوانوں کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ سرائیکی اہل قلم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔
سہولتوں کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکز میں اکادمی ادبیات مقتدرہ ، نیشنل بک فائونڈیشن جیسے ادارے موجود ہیں مگر آج تک کسی ادارے نے کوئی سرائیکی کتاب شائع نہیں کی۔ پنجاب حکومت نے اربوں روپے کی لاگت سے پنجابی کمپلیکس بنایا ہے اور ہر ماہ کروڑوں کا خرچ ہے مگر وعدے کے باوجود سرائیکی وسیب میں سیلاک یعنی سرائیکی لینگویج آرٹ اینڈ کلچر کا ادارہ وجود میں نہیں لایا گیا۔
پنجاب رائٹرز ویلفیئر فنڈ پنجاب پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ وسیب کے شاعر، ادیب، دانشورکو حصہ نہیں ملتا۔ وسیب کے بہت سے اہل قلم علالت کے باعث علاج کئے بغیر سسک سسک کر مر گئے مگر حکمرانوں کو ترس نہیں آیا۔ وسیب کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک صوبہ سرائیکستان کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔ خادم حسین مخفی نے کہا کہ سرائیکستان کے قیام کیلئے اہل قلم کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ اُن کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ سرائیکی وسیب کو قابض قوتوں کے ساتھ ساتھ وسیب کے جاگیرداروں، گدی نشینوں اور آبادکاروں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
یہ سب رہتے سرائیکی وسیب میں ہیں، فوائد وسیب سے حاصل کرتے ہیں مگر ان کے دل لاہور کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ مشتاق سبقت نے کہا کہ خیبرپختونخواہ حکومت ٹانک، ڈی آئی خان کے اہل قلم سے سوتیلی ماں کا سلوک کرتی ہے ان تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ ہم ای فورم پر اکٹھے ہو جائیں اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک حقوق حاصل نہ کر لیں۔ مرکزی صدر پاکستان سرائیکی رائٹرز فورم عبدالرزاق زاہد نے ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکادمی ادبیات ملتان کو مکمل اختیار دے کر بحال کیا جائے،
تمام اضلاع میں آرٹس کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے، تحصیل لیول پر ٹی ہائوس یا کوئی ادبی ہال بنایا جائے، تمام تحصیلوں میں ادبی ہیروز کے نام سے لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا جائے، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی طرز پر ملتان میں سرائیکستان انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر (سلاک) کے نام سے ادارہ قائم کیا جائے، بہاولپور میں قائم سرائیکی ادبی مجلس کو لکھاریوں کے حوالے کیا جائے
، تھر اور چولستان میں موجود سرکاری زمینیں لکھاریوں کو الاٹ کی جائیں، لاہور کی طرح سرائیکی وسیب کے لکھاریوں کیلئے ضلع لیول پر رہائشی کالونیاں قائم کی جائیں، نامور فوت شدگان لکھاریوں کی تصاویر آرٹس کونسلوں میں لگائی جائیں، فوت شدہ مصنفین کے بیوی بچوں کو وظائف جاری کئے جائیں، یونین کونسل لیول پر ادبی و ثقافتی فنڈز کا اجراء کیا جائے، وسیب کے تمام ریڈیوز سٹیشن پر لکھاریوں کو سرکاری طور پر موقع دیا جائے، پی ٹی وی ملتان سنٹر پر لکھاریوں کیلئے روزانہ ایک گھنٹے کا پروگرام رکھا جائے، ضلع لیول پر ہر سال سرکاری سطح پر لکھاریوں کی پانچ کتابیں چھپوائی جائیں، صاف اور شفاف تحقیقات کے بعد لکھاریوں کے وظائف جاری کئے جائیں۔ ڈاکٹر عمر فاروق بلوچ نے کہا کہ وسیب کے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے
۔ حکومت وسیب کے اہل فن، اہل ہنر اور اہل قلم کیلئے فراخ دلانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وسیب کے اہل قلم کی عظیم خدمات ہیں جنہیں ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فیض بلوچ نے کہا کہ شاعر ، لکھاری یہ بہت بڑے آدمی ہیں ۔ اصل ہمارے ملک کے ہیروز تو یہ ہوتے ہیں جو ہر دُکھ کو بغیر خوف کے اپنی تحریر اور شعروں کی شکل میں عوام تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کے رہنما ملک جاوید چنڑ نے کہا کہ سرائیکی شعراء کرام کو اب انقلابی شاعری لکھنی چاہیئے ، اپنے وسیب کی محرومی لکھیں ، جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف بغاوت کا اعلان کریں ۔ سرائیکی صوبے کی تحریک میںسب سے زیادہ کردار شعراء کرام نے ادا کیا ہے۔ شعور ناصر نے کہا کہ یہ فورم اہل قلم کے لیے بہت بڑا پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔
اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنی پڑتی ہے اِس دور میں گھر بیٹھے کسی کو اُس کے حق نہیں ملتا ، حق لینے کے لئے بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے۔ رفیق ساگر نے کہا کہ اب نوجوان لکھاریوں کو فرنٹ پر آنا چاہیے ، اب یہ دور نوجوانوں کا ہے جو اپنی تحریروں کے ساتھ ساتھ سرائیکی تحریک کا بھی کام کریں ، اہل قلم کو شاعری کے علاوہ نثر پر زیادہ کام کرنا چاہیئے ۔ اس وقت سرائیکی زبان میں نثر کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ سید علی تنہاء نے کہا ہے
کہ میں تمام لکھاریوں کو التماس کروں گا کہ آئیں پاکستان سرائیکی رائٹرز فورم کے بانہہ بیلی بنیں ، اپنے حق کی خاطر غریب اہل قلم کے حقوق کی جنگ لڑمیں میں اس فورم کا ساتھ دیں۔ شیخ محمد عثمان نے کہا کہ وسیب میں رہنے والے اہل قلم چاہے وہ اُردو ، پنجابی یاسرائیکی بولنے والے ہوں سب اس خطے کے قلم کار ہیں ۔ اِن میں اتفاق بہت ضروری ہے ورنہ کچھ خوشامدی لوگوں کا راج رہے گا۔