غریب عوام کے امیر حکمران !
ہمارے ملک میں ایک طرف ناجائز لوٹ مار سے بنائی دولت کے انبار ہیں تو دوسری جانب غریب عوام کے گھروں میں چھائے غربت کے سائے ہیں،لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ غربت کے خاتمہ کے بجائے غریب کے خاتمے پر ہی لگی ہوئی ہے ، یہ اقتدار میں آنے سے قبل بڑے بڑے دعوئے کرتے ہیں ،لیکن اقتدار میں آئیںتو کچھ کرتے نہیں اور حزب اختلاف میں رہیں تو کچھ کر نے نہیں دیتے ہیں
،اہل سیاست کا اقتدار میں رہنا عوام کیلئے فائدہ مند ہورہا ہے نہ ہی حزب اختلاف میں رہنا عوام کی آواز بن رہا ہے ،عوام اپنے بڑھتے مسائل کا بوجھ برداشت کر نے کے ساتھ کرپٹ حکمرانوں کی نااہلیوں کا بوجھ اُٹھانے پر بھی مجبور دکھائی دیتے ہیں ۔اس ملک کا عام غریب طبقہ غربت سے بے موت مررہا ہے ،جبکہ امیر طبقہ مزید امیر ہی ہوتا جارہا ہے ، کیو نکہ یہاں پر دولت مند با اثر طبقات سے ٹیکس وصول کر نے کے بجائے سارے ہی با لواسطہ عائد ٹیکس عام آدمی سے وصول کیے جارہے ہیں،
عام آدمی کیلئے بے جا ٹیکسوں کے بوجھ تلے جسم و جاںکا رشتہ بر قرار رکھنا دشوار ہو گیا ہے ،جبکہ دولت مند طبقہ ٹیکس دیے رہا ہے نہ ہی اپنی ناجائز دولت اپنے ہی ملک میں لگارہا ہے ، بلکہ دوسرے ممالک منتقل کرتا جارہاہے ، ٹیکس اورمحصولات کے بارے تحقیق کرنے والے ایک ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے باہر پاکستانیوں کی دولت کا تخمینہ 19 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا ہے
،اس رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے اپنی دولت سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے دنیا کے تین بڑے شہر دبئی، لندن اور سنگاپور میںمنتقل کی ہے ،جوکہ 11 ارب ڈالر بنتی ہے،اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غریب ملک کے چند فیصد طاقتور افراد بیرون ممالک کتنی زیادہ دولت رکھتے ہیں۔
ایک طرف ملک کے کرپٹ طاقتور افراد بیرون ممالک دولت کے انبار لگارہے ہیں تو دوسری جانب پاکستانی غریب عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی اور معاشی بحران کے جھٹکے سہہ رہے ہیں، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے نام پر آئی ایم ایف کی ایسی ایسی شرائط قبول کی جارہی ہیں، جو کہ زندگی کو موت سے بدتر بنارہی ہیں،
صرف ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے پاکستان کو بیچ دیا گیا ہے،لیکن پاکستانیوں کی بیرون ملک دولت کا کوئی حساب لگایا گیا نہ ہی واپس لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے، آخر وہ کون سا کاروبار ہے کہ جس نے چند پا کستانیوں کو دنیا بھر کے ارب پتی لوگوں میں شامل کردیا ہے، جبکہ پاکستان صنعتی ترقی میں بہت پیچھے ہے، ظاہری بات ہے کہ قومی دولت کو ہی بڑی ہی بے دردی سے لوٹا گیا ہے،
پاکستانیوں نے صرف 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری دبئی میں کی ہے، جبکہ قو می خزانے میں 5 ارب ڈالر کے ذخائر بھی زرمبادلہ کی صورت میں موجود نہیں ہیںاور دعوئے معاشی بحالی کے کیے جارہے ہیں۔
پاکستان کے بہتر معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے، اس سے کہیں زیادہ واضح ہے اور ہمیشہ واضح کیا جاتا بھی رہے گا، لیکن قیادت کا غربت کے خاتمے اور ملک کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے اصلاحات کے عزم کا فقدان بامعنی ترقی کی راہ میں سب سے رکاوٹ رہا اور اب بھی رکاوٹ ہے،اس ملک میں جب تک اشرافیہ اپنا رویہ نہیں بدلے گی ، عام عوام پر اضافی ٹیکس کا بوجھ ڈالتے رہنے کے بجائے ٹیکس دینے کی عادت نہیں ڈالے گی، اپنی دولت بیرون ممالک سے واپس نہیں لائے گی ،عام عوام سے قر بانی لیتے رہنے کے بجائے خود قر بانی دینے کی عادت نہیں ڈالے گی تو
اس ملک میں معاشی بحالی کا کوئی منصوبہ کیسے کامیاب ہوسکتا ہے؟
ملک میں معاشی بحالی کیلئے آرمی چیف کی کائوشیں اپنی جگہ درست ہیں ،مگر اس ملک کی کرپٹ حکمران اشرافیہ ملک وعوام کی خوشحالی میں سب سے بڑی روکاوٹ بنتی ہی رہے گی ،یہ حصول اقتدار میںایک دوسرے کے مخالف اور عوام کے خلاف اکٹھے ہیں، ان سب کا مقصد ہی عوام کو بے وقوف بنانا ہے،یہ سب ہی کروڑ پتی ،بلکہ ارب پتی ہیں، مگر ان کی تان ہمیشہ غریبوں کی بری حالت پر ہی ٹوٹتی ہے، یہ سارے ہی امیر حکمران بظاہر غریب عوام کے غم میں ہلکان نظر آتے ہیں ،لیکن حقیقت میں غریبوں کے ہی سب سے بڑے دشمن رہے ہیں،یہ اقتدار کیلئے غریب کا کندھاضرور استعمال کرتے ہیں
،لیکن غریب کو اپنے اقتدار میں کبھی شامل نہیں کرتے ہیں ،آرمی چیف جتنی مرضی خوشحالی لانے کی کوشش کر تے رہیں ،یہ چند فیصد آزمائے کرپٹ حکمران ا شرافیہ کبھی عوام کو امیر نہیں ہونے دیں گے،یہ اُن کے نام پر اربوں روپے لوٹیں گے، لیکن کبھی ایک دوسرے کا احتساب نہیں کریں گے، البتہ احتساب کے نام پر غریب عوام کوہی بے وقوف بنائیں گے اور بھولے غریب عوام اپنے امیر حکمرانوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہیں گے۔