54

کارپوریٹ فارمنگ اور زرعی انقلاب کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضوں کے خلاف عوامی تحریک نے ٹھٹہ پریس کلب میں ’’سندھ کی زمینیں اور وسائل بچاؤ کانفرنس

کارپوریٹ فارمنگ اور زرعی انقلاب کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضوں کے خلاف عوامی تحریک نے ٹھٹہ پریس کلب میں ’’سندھ کی زمینیں اور وسائل بچاؤ کانفرنس

ٹھٹھہ نمائندہ
کارپوریٹ فارمنگ اور زرعی انقلاب کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضوں کے خلاف عوامی تحریک نے ٹھٹہ پریس کلب میں ’’سندھ کی زمینیں اور وسائل بچاؤ کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا۔ کانفرنس میں سندھ کے ادیبوں، دانشوروں، شاعروں، وکلاء، ادیبوں، سیاسی و سماجی رہنماؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کی آڑ میں سندھ کی 52 ہزار ایکڑ زمین ایم ایس گرین کارپوریٹ کمپنی کو دینے کے نوٹیفکیشن کو سندھ کے وجود کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔  سندھ کے سیاحتی مقامات کو نیلام کرنے کی مذمت۔ کانفرنس سے عوامی تحریک کے مرکزی صدر لال جروار، مرکزی جنرل سیکریٹری نور احمد کاتیار، مرکزی نائب صدر حورالنساء پلیجو، معروف ادیب جامی چانڈیو، سینئر صحافی دستگیر بھٹی، روزنامہ کوشش کے ایڈیٹر نعمت کھڑو، سماجی رہنما خدا ڈنو شاہ، کالم نگار اسماعیل میمن، اقبال جاکرو،

سماجی رہنماء خدا ڈنو شاہ، اقبال جاکرو، سماجی رہنما شفیع مرگھر، امیر بخش جت، عبدالرشید میمن، عبدالغنی عباسی، اللہ جڑیو برفت، عوامی تحریک ضلع ٹھٹہ کے صدر مٹھا خان لاشاری، عوامی تحریک کے مرکزی رہنما نورنبی پلیجو، گنہور خان زئور، کاشف ملاح، ایڈووکیٹ راحیل بھٹو، علی محمد کلمتی جام تماچی، سندھیانی تحریک کی مرکزی رہنما سلمیٰ لاشاری، ایس جی ایس ٹی کی مرکزی صدر ساجدہ پرہیاڑ، زاہدہ لاشاری، عوامی تحریک کے رہنما مسعود انور پلیجو، سماجی رہنما جمشید جوکیو، ابراہیم ہیجاپ، حسین آزاد، انور پالاری، گسٹا رہنما غلام نبی خشک، صادق لاکھو اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا.
(عوامی تحریک کی جانب سے 17 دسمبر 2023ع کو ٹھٹہ پریس کلب میں” سندھ کی زمینیں اور وسائل بچاؤ “ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں سندھ کے ادیبوں، دانشوروں، سیاسی و سماجی رہنماؤں، وکلا، صحافیوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں، شاعروں، کسانوں، طلباء اور دیگر شرکاء کی جانب سے متفقہ طور پر درج ذیل قراردادوں کی منظوری دی گئی۔)
اس ملک پر قابض حکمرانوں اور ان کے شراکت دار سول اور ملٹری کامورہ شاہی نے پاکستان کے قیام کے بعد اس ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کی سیکولر اور روشن خیال اصولوں اور 1940ع کی قرارداد لاہور جس کے تحت اس ملک کا قیام عمل میں آیا ان کو دیوار سے لگادیا- 
اس ملک کے خالق قوموں کے وسائل، زمینیں، شہر، روزگار،

نوکریوں، پانی پر قبضہ کر کے طاقت کے ذریعے حکومت کرنے والے عمل نے پاکستان کو چھوٹی قوموں کے جیل میں تبدیل کردیا ہے۔حکمرانوں نے قائداعظم کے سیکولر اور روشن خیال اصولوں اور 1940ع کی قرارداد پر عمل کرنے کے بجائے کبھی جھوٹی جمہوریت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا اور کبھی براہ راست مارشل لا کے ذریعے قوموں کی زمینیں اور وسائل کو لوٹا ہے۔قیام پاکستان کے فوری بعد سندھ کو ایک مفتوحہ علاقہ تصور کیا گیا

اور زمینوں و وسائل پر بے رحمی اور زبردستی سے قبضہ کیا گیا۔ ون یونٹ کو نفاذ کر کے سندھ کا تشخص ختم کردیا گیا۔ ون یونٹ کے دور میں سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینوں پر قبضہ کیا گیا، اس کے بعد دیگر نام نہاد جمہوری ادوار اور مارشل لا کے دور میں سندھ کی زمینوں پر قبضہ کرکے وسائل کی لوٹ مار کی گئی۔ 
اگست 2023ع کے مہینے میں پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت نے غیر جمہوری طاقتوں کے ساتھ مل کر بورڈ آف انویسٹمنٹ آرڈیننس 2001ع ترمیمی ایکٹ پاس کر کے معدنیات کے انتظام کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کے نام سے ایک ادارہ بنایا۔ چھوٹے صوبوں کی زمینیں اور وسائل زرعی انقلاب اور معاشی ترقی کی آڑ میں قبضے کا لائسنس اس ادارے کو جاری کیا گیا۔ 
اس کونسل کے تحت ایم ایس گرین کارپوریٹ انیشیٹو لمیٹڈ جس کا تعلق فوج سے ہے، راتوں رات قائم کیا گیا. سندھ کی نگران حکومت نے پہلے مرحلے میں 52 ہزار ایکڑ سے زائد زمین اس کمپنی کے حوالے کر دی ہے۔ 
16 دسمبر 2023ع کو نگراں وزیراعلیٰ سندھ مقبول باقر کی زیر صدارت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پالیسی بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں کینجھر جھیل، ہالیجی جھیل، ہاکس بے ریزورٹ اور رنی کوٹ گیسٹ ہاؤس کو مختلف کمپنیوں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سندھ اور وفاق کی نگران حکومت جس کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرائیں۔ نہ تو موجودہ نگران حکومت اور نہ ہی کسی نام نہاد منتخب حکومت کو کوئی اخلاقی یا قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مقامی اور قدیمی باشندوں سندھیوں، بلوچوں اور سرائیکیوں کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرے. اس لئے نگران حکومت کی طرف سے الاٹ کی گئی زمینیں کسی اور کے حوالے کرے۔ فوری طور پر مسترد کر دیا. 
کینجھر جھیل کے مختلف منصوبوں کے نام پر 6500 ایکڑ سے زائد زمین کویتی کمپنی کے حوالے کی جا رہی ہے۔ ساحلی پٹی کی ہزاروں ایکڑ زمین بین الاقوامی کمپنیوں کو فروخت کر کے ریکارڈ کر دیا گیا ہے۔ دارسی، جزیرہ میہار اور پیر کیجریو میں 25 ہزار ایکڑ زمین جعلی ڈاکیومینٹس بنا کر دبئی اور دیگر ممالک کی کمپنیوں کو فروخت کی گئی ہے۔
2013ع سے 2018ع تک پیپلز پارٹی کی حکومت نے  یہ زمینیں جعلی ڈاکیمینٹس بنا کر بین الاقوامی کمپنیوں کو فروخت کی ہے۔ 2010ع میں کارو چھان اور کیٹی بندر کی 690000 ایکڑ زمین کے ڈاکیمینٹس غائب کرانے کے بعد سرکاری اہلکاروں کے ذریعے جعلی ڈاکیومینٹس بنا کر اسے بین الاقوامی کمپنیوں کو فروخت کیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 
کوہستان تپو جھمپیر دیہ کوہستان 7/1 ضلع اور تعلقہ ٹھٹہ کی 40000 ایکڑ زمین ایئر بیس کو دی گئی ہے۔ 
نیوی فورس کو 5000 ایکڑ، ونڈ پاور کو 52000 ایکڑ، دبئی کے عرب شہزادے ناصر بن لوطہ کو 5000 ایکڑ، M9 موٹر وے کے دونوں جانب مختلف رہائشی اسکیموں کو 20000 ایکڑ زمین دی گئی ہے، جبکہ ضلعہ ٹھٹہ کی 5000 ایکڑ زمینوں کے ڈاکیومینٹس تبدیل کر کے صنعتی علاقے میں ضم کر کے سرمائيداروں کو فروخت کر دی گئی ہے۔ 
دیہ کوہستان 7/4 جنگشاہی کی 3000 ہزار ایکڑ زمین ڈی ایچ اے کو دی گئی ہے۔ کیٹی بندر کی یونین کائونسل پرانے کھارو چھان کی دیہ داراسی کی 3760 ایکڑ، دیہہ ٹہاری واری کی 2010ع ایکڑ اور جزیری میہار کی 3368 ایکڑ زمین اسٹیبلشمنٹ کے کارندے مقامی جاگیرداروں کے نام کمپیوٹرائزڈ ڈاکیومینٹس کے ذریعے بین الاقوامی کمپنیوں کو فروخت کی گئی ہے۔ 
گھوڑا باڑی اور کیٹی بندر کی 11 ہزار ایکڑ، سجاول جاتی اور شاہ بندر کی 3408 ایکڑ زمین پر زرعی انقلاب کے نام پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ 
آج کی اس کانفرنس میں سندھ کے سیاسی، سماجی نمائندوں اور سندھ کے خیر خواہ مشترکہ طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ: زرعی انقلاب کے نام پر سندھ سمیت ملک بھر کی مظلوم اقوام کی زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ 
سندھ کی ساحلی پٹی ٹھٹہ، سجاول، بدین اور کراچی کی زمینیں ملٹی نیشنل کمپنیوں، رہائشی اسکیموں اور دیگر قابضین کے حوالے کرنے کا غلیظ کاروبار بند کیا جائے۔ 
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے تحت سندھ میں 52,000 ایکڑ سے زائد زمین آرمی سے منسلک گرین کارپوریٹ انیشییٹو کمپنی کو زرعی فارمنگ کے لیے دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ سندھی عوام کو اپنے ہی وطن میں بے وطن کرنے کا فیصلہ ہے. اس غیر قانونی، غیر آئینی، سندھ دشمن، ملک دشمن فیصلے کو فورن واپس لیا جائے۔ 
ترقی اور جدید کاری کے نام پر سندھ کی نگران حکومت کی جانب سے کینجھر اور ہالیجی جھیل کو نیلام کرنے کا فیصلہ سندھ کا عوام مسترد کرتا ہے، یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ 
کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ کے نام پر کراچی میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین گرین کارپوریٹ انیشیٹو کمپنی کے حوالے کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ اس ملک دشمن رجحان کو روکا جائے۔ 
سندھ کی زمین کارپوریٹ ایگریکلچرل فارمنگ کے نام پر بین الاقوامی کمپنیوں اور عسکری اداروں کو دینے کی بجائے مقامی بے زمین کسانوں کو دی جائے اور زرعی اصلاحات کی جائیں۔ 
زرعی انقلاب کے نعرے میں سندھیوں، بلوچوں، سرائیکیوں، پختونوں، کشمیریوں اور گلگتیوں کی زمینوں، وسائل، پانی، پہاڑوں اور دریائی کچے پر قبضوں کا سلسلہ بند کیا جائے. 
یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک سندھ کی زمینوں پر ہونے والے قبضوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین غیر جانبدار ججوں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اس کمیشن کی سفارشات پر سندھ کی زمینوں پر قبضے کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
ملک کی لوٹ مار کر کے، معاشی طور پر دیوالیہ بنابے اور امریکی سامراج کے پاس مکمل گروی رکھنے کے منصوبے بند کی جائے۔ 
یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ دریائے سندھ پر کوئی بھی ڈیم یا کینال بنانے کا سلسلہ ببد کیا جائے اور سندھ کو اس کے حصے کا پانی دیا جائے۔ 
یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ بحریہ ٹاؤن، ڈی ایچ اے سٹی، ذوالفقار آباد اور دیگر رہائشی علاقوں کے نام پر سندھ کی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ 
سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018ع کو دیئے گئے فیصلے کے
تحت بحریہ ٹاؤن کی زمین اصل مکینوں کو واپس کی جائے اور اس فراڈ میں ملوث تمام کرداروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ 
کینجھر کو عالمی ورثہ قرار دے کر اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ 
کینجھر، کارونجھر، ہالیجی جھیل، کیرتھر نیشنل پارک، گورکھ ہل اور گنجو ٹکر سمیت سندھ کے تمام تاریخی، ثقافتی مقامات اور پہاڑوں پر قبضوں کو روکا جائے۔ 
موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے سندھ کی ساحلی پٹی پر تمر کے جنگلات کی کاشت کے لیے مختص زمین کو غیر قانونی طور پر بلڈرز مافیا کو الاٹ کر کے سندھ کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا گیا ہے۔

  سندھ کی ساحلی پٹی میں تمر کے جنگلات کی زمینوں پر قبضے ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 2022ع کے سیلاب میں سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تمر کے جنگلات کی تجاوزات مزید خطرناک صورتحال پیدا کر دے گی۔ تمر کے جنگلات پر قبضہ کرنے والے مافیاز کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور ان سے زمین واپس لی جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں