جمہوریت ہار رہی ہے !
اس ملک میں جو سیاسی نظام جمع تفریق کرکے ایوانوں میں پہنچایا گیا ہے، یہ سیاسی نظام عوام نے منتخب نہیں کیا ہے، عوام نے تو بدعنوان سیاسی ماضی دفن کرنے کے لیے ووٹ دیے تھے، لیکن اُن کے سامنے پھر وہی نظام آگیا ہے ،یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ایک پارٹی کہہ رہی ہے کہ اسے آئینی عہدہ دیئے جائیں تو ہی نظام کا حصہ بنیں گے‘ دوسری کہتی ہے کہ نظام کا حصہ بننا ہے تو وزارتیں بھی لی جائیں،
تاکہ ناکامیوں کا بوجھ اُٹھانے میں پلڑا برابر رہے ، یہ دونوں ہی اقتدار کی بندر بانٹ کرنے میں لگے ہیں،انہیں ملک عوام دے کوئی غرض نہیں ہے ،یہ جانتے ہوئے ہی عوام نے ان کے کلاف فیصلہ دیا ہے، عوام کی بات کبھی غلط ہوتی ہے نہ ہی ان کا فیصلہ کبھی غلط ہوتا ہے، عوام نے فیصلہ دیا، مگر عوام کو گنتی میں ہرا دیا گیا،لیکن عوام کی ایسی ہار کو کبھی اپنی جیت میں بدلا نہیں جاسکتا ہے۔
اس الیکشن میں کیا ہوا ہے
اور اس کے بعد کیا ہورہا ہے ، اس سے عوام غافل ہیں نہ ہی عوام کو مزید بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ، اس نظام سے ہی عوام کا اؑعتماد اُٹھ چکا ہے ، اس ملک میں کس کی حکومت بن رہی ہے ،اقتدار میں کون آرہا ہے ،اس سے عوام بالکل ہی لا تعلق دکھائی دیتے ہیں ،عوام کو آزمائے حکمروانوں کے دعوئوں اور وعدئوں کا اعتبار ہے نہ ہی ان کے زبانی کلامی اعلانات پر یقین کر تے ہیں ، عوام عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں
،عوام چاہتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں کوئی تبدیلی لائی جائے ،جو کہ انہیں دور تک آتی کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے ۔اس ملک کے عوام کیلئے ایک طرف اقتدار میں آنے والوں کے وہی پرانے بڑے بڑے دعوئے ہیں تو دوسری جانب جانے والی نگران حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں بھی مہنگائی کا سونامی اٹھا کر عوام کی زندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، یہ پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، پانی کے نرخ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت ہی بڑھائے جارہے
ہیںاور آئندہ بھی ایسے ہی بڑھا ئے جاتے رہیں گے ، کیو نکہ نئی حکومت کا پہلا کام ہی آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے کا ہوگا،اس کی شرائط پہلے سے بھی سخت ہو سکتی ہیں ،اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد اس کے ہاتھوں عوام کا کیا حشر ہونے والا ہے؟
فی الوقت تو نگران حکومت نے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، پانی اور ادویات کے شتربے مہار انداز میں نرخ بڑھاتے بڑھاتے نئے حکمرانوں کے راستے میں اقتدار سنبھانے سے پہلے ہی عوامی اضطراب کے پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں،یہ نگران حکومت پی ڈی ایم کا ہی تسلسل رہی ہے اور آنے والی حکومت بھی پی ڈی ایم ٹو ہے ، اس لیے ایک دوسرے کو مو د الزام ٹہرانے کی پو زیشن میں نہیں ہیں
،لیکن اگر اس بار آنے والی حکومت عوام کو فوری ریلیف کے ذریعے مطمئن کرنے کی پوزیشن میںنہ آسکی تو اسے اسمبلیوں کے اندر اپوزیشن کے ہاتھوں ہی نہیں‘ اسمبلیوں کے باہر سڑکوں پر بھی عوام کی جانب سے سخت مزحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔عوام کے صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہوتا جارہا ہے ،اوپر سے اضافی بلوں کے باعث عوامی برداشت جواب دیے گئی ہے ،اس پرآٹا ، دال ،چاول ،گھی ،
سبزیاں عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں ، مجموعی طور پر مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی مشکلات میں فوری کمی ترجیح اول ہو نی چاہئے ،لیکن ایسا تبھی ممکن ہے کہ جب حکمران اپنے شاہانہ ٹھاٹ بھاٹ کم کریں ، کیو نکہ ان مراعات پر قومی خزانے کو ہی قر بان کیا جاتا ہے ،جوکہ عوام کے خون پسنے کی کمائی کا ہی محور ہے ،اس سے استفادے کا پہلا حق بھی عوام کا ہی ہو نا چاہئے ،اگر نئی حکومت نے آتے ہی اپنی مرعات میں کمی لانے کے ساتھ عوامی مسائل کے حل کیلئے کام کیا تو شاید انہیں عوامی پذیرآرائی مل سکے ،ورنہ یہ عوامی مینڈیٹ چوری زدہ حکومت زیادہ دیرتک چل نہیں پائی گی ۔
اس حکومت کی عوام میں پذآرائی کسی سے ڈھکی چھپی ہے نہ ہی تحریک انصاف کی بڑھتی مقبولیت کسی سے سے پو شیدہ ہے ، اگر مختلف طریقوں سے تحریک انصاف کواقتدار سے دور رکھنے ، زور زبر دستی دبانے اور دیوار سے لگانے کی ایسے ہی کو شش کی جاتی رہیں گی تو اس کے انتہائی منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے ، اس لیے ہی کچھ سنجیدہ حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ انتخابی دھاندلی کی شفاف تحقیقات کر کے عوامی کے مینڈیٹ کو ہی اقتدار سونپا جائے،ا گر یہ چیزیں نہ کئی گئیں
تو ملک میں نہ صرف بے یقینی بڑھے گی،بلکہ آنے والا سیاسی منظر نامہ بھی خاصہ متنازع ہی رہے گا،سیاسی قوتوں کو بھی تاریخ کے اس اہم مرحلے پر سوچ سمجھ کر بالغ نظری سے فیصلے کرنا ہوں گے ،تاکہ ملک میں جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے،بصورت دیگر ایک سے بڑھ کر ایک ایسے سر پرائز ملیں گے کہ جمہوریت ہار جائے گی ۔