اس بار عوام ہی سب پر بھاری ہے ! 28

اس بار عوام ہی سب پر بھاری ہے !

اس بار عوام ہی سب پر بھاری ہے !

اس ملک میںہر حکمران آتا ہی کہتا ہے کہ ہم ملک کو ترقی دینے آئے ہیں ،اس کا کھویا مقام دلانے آئے ہیں، لیکن جب جاتے ہیں تو کہتے ہیںکہ ہم سب کچھ ٹھیک کر رہے تھے، ہمیں کیوں نکالاگیا ہے ،؟یہ ایک کے بعد ایک کے جانے اور آنے کا کھیل ایک عرصہ د راز سے جاری ہے،اس بار جسے نکلا جاتا ہے ،اگلی بار اُسے ہی لایا جاتا ہے ، اس بار بھی ایک آزمائے کو ہی لایا گیاہے، جوکہ آتے ہی ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کررہا ہے کہ پاکستان کو اس کا صحیح مقام دلائے گا ،لیکن یہ اقتدار میں آنے والے اس کا حساب قوم کو دینے کیلئے تیار نہیں ہیں ،جو کہ اب تک کارنامے سر انجام دیتے رہے ہیں۔
یہ جتنے بھی آزمائے لوگ اقتدار میں آتے رہے ہیں ،انہوں نے عوام کو بے وقوف ہی سمجھ رکھا ہے ، یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کے ذہن بہت کمزور ہیں ، عوام بہت جلد سب کچھ ہی بھول جاتے ہیں ، عوام کچھ نہیں بھولتے ہیں ، عوام نہ صرف سب کچھ یاد رکھتے ہے ،بلکہ اس کے اظہار کاجب بھی موقع ملتا ہے ، اس کا بر ملا اظہار بھی کرتے ہیں ، اس بارعوام نے انتخابات میں تو انتہا ہی کر دی ہے ، سارے ہی آزمائے کو اپنے ووٹ سے مسترد کر کے سارا پلان ہی دریا برد کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے

کہ ظلم و جبر سے بند کمروں کے فیصلوں کو منوایا جاسکتا ہے نہ ہی عوام کے پسندیدہ کو عوام کی مرضی کے خلاف ہرایا جاسکتا ہے، لیکن ایک ضد ہے کہ عوام کے فیصلے کو مانا ہے نہ ہی عوام کے منتخب کر دہ کو لانا ہے ، اس لیے سارے ہی حر بے آزمائے جارہے ہیں ،اوراداروں کی ساکھ دائوں پر لگائے جارہے ہیں ۔
اس دھاندلی زدہ انتخابات کے باعث دنیا بھر میں پا کستان کی جتنی ساکھ خراب ہوئی ہے ، شاید اتنی جگ ہنسائی کبھی نہیں ہوئی ہے ،اس کے باوجود کسی پر کوئی اثر ہورہا ہے نہ ہی کہیں اپنے روئیوں میں تبدیلی لائے جارہی ہے ، سر عام آئین و قانون پا مال کرتے ہوئے اقلیت کو اکسریت میں بدلا جارہا ہے ، اس سے پہلے انتخابات میں دھاندلی کر کے ہار تے ہوئوں کو جتوایا گیا ہے ، اس کے باوجود جب بات نہیں بنی تو مخصوص نشستوں پر ڈ ا کا ماروایاگیاہے

، اس کے بعد کہاں جارہا ہے کہ آئیں مل کر میثاق جمہوریت کرتے ہیں ، میثاق معیشت کے ذریعے ملک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں ، اس صورتحال میں کو نسا میثاق ہو پائے گا اور کیسے ملک بحرانوں سے نکل پائے گا ، اس حوالے سے کہیں کوئی مثبت سوچ دکھائی دیتی ہے نہ ہی کہیں سنجیدگی پائی جارہی ہے ، ہر کوئی زبانی کلامی مفاہمت کا ڈھول پیٹ کر ڈنگ ٹپائو پرواگرام پر ہی عمل پیراں ہے ، لیکن اس بار ڈنگ ٹپائو پروگرام چلنے والا نہیں ہے۔
اس نئی ا تحادی حکومت کا جو بھی عہدیدار آرہا ہے ، وہی پرانے بڑے بڑے دعوئے دھرائے جارہا ہے ، وزیر اعظم میاں شہباز شریف فرمایا رہے ہیںکہ پاکستان کو صحیح مقام دلوائیں گے، بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ ملک کو مل کر آگے لے کر جائیں گے ، یہ دونوں ہی اپنی پارٹی کی مقتدرہ کی مددسے بنے والی حکومتوں کا حساب دیں کہ انہوں نے اپنے ادوار میں ملک کوصحیح مقام دلوانے والا کون سا کام کیا ہے

اور ملک کو آگے لے جانے میں کو نسا کارنامہ سر انجام دیا ہے،ان دونوں پارٹیوں نے ہی ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچایا ہے اور اس تباہی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹہرانے کے ساتھ ساتھ تیسر ے پر بھی الزام لگارہے ہیں،انہوں نے پہلے اپنی کوتاہیوں اور نا اہلیوں کو کبھی مانا ہے نہ ہی آئندہ مانتے دکھائی دیتے ہیں ، یہ ایک طرف مفاہمت کی باتیں کر تے ہیں تو دوسری جانب انتقام و الزام کی سیاست کر نے لگتے ہیں ، اس قول فعل کے تذاد کا ہی نتیجہ ہے کہ پا رلیمان کے اندر اور باہر استحکام کے بجائے مزید انتشار ہی بڑھتا دکھائی دیے رہا ہے ۔
اس وقت ملک کسی سیاسی انتشار و عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا ، لیکن اس کی کسی ایک کو بھی کوئی فکر ہے نہ ہی اس کے سد باب کی کوئی سنجیدہ کو شش کی جارہی ہے ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) قیادت کو اقتدار کی بندر بانٹ سے ہی فر صت نہیں مل پارہی ہے ، انہیں اقتدار میںآنے پر سب کچھ ہی اچھا اور سب کچھ ہی بہتر ہوتادکھائی دیے رہا ہے ، تحریک انصاف جب آئی تھی ،اسے بھی کچھ ایسا ہی لگتا تھا،

اس وقت مقتدرہ اُن کے ساتھ تھی ،آج نئی اتحادی حکومت کے ساتھ ہے، اس لیے ہی زیادہ تر ذرائع ابلاغ آنے والوں کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور اپوزیشن کے احتجاج کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، لیکن ہوائیں کب اپنا رُخ بدل لیتی ہیں کچھ پتہ ہی نہیں چلتا ہے ، کل پی ٹی آئی مل کر چلنے کی باتیں کررہی تھی آج اتحادی قیادت مل بیٹھ کر فیصلے کرنے کی باتیں کر رہے ہیں، لیکن کس سے مل کرفیصلے کریں گے کہ جن کو دھاندلی کے ذریعے ایوان سے باہر کیا گیایا اُن سے کہ جن کی نمائندگی کم کروائی گئی ہے ،

ظاہر ہے کہ وزیر اعظم ان پارٹیوں سے مل کر توفیصلے نہیں کریں گے تو پھر ان کے فیصلے کوئی اور ہی کرے گا اور ساراوبال اہل سیاست پر آئے گا،لیکن اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جانتے بوجھتے اہل سیاست اَنجان بن رہے ہیں یا سمجھنا ہی نہیں چاہ ر ہے ہیں، کیو نکہ اس وقت با ریوں کا کھیل ہی ہر چیز پر بھاری ہے،یہ باری جب ایک کوملتی ہے تو اُسے اچھی لگتی ہے ، لیکن دوسرے کو ملے تو بہت بری لگتی ہے، تاہم اس بار عوام ان باریوں والوں پر بہت بھاری پڑنے والے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں