132

سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے !

سیاست بند گلی میں داخل ہو چکی ہے !

اس ملک میں بد حال معیشت کی گتھی سیاست ہی کھول سکتی ہے، لیکن سیاست بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے،اس بند گلی سے نکلنے کا واحد راستہ ڈائیلاگ ہے ،لیکن اہل سیاست کے سیاسی اختلاف ہی اتنے بڑھتے جارہے ہیں کہ ایوان پارلیمان تک اکھاڑے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، اس پر اشرافیائی ڈرامے کو قومی نشریاتی ادارے کے ذریعے عوام کو دکھا کر باور کر نے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ جتنے طاقتور لوگ ہیں،انکا عوام کچھ بگاڑسکتے ہیں نہ ہی ان سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں ،اہل سیاست کے بے لچک رویئے کے باعث سیاست ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے۔
اگر دیکھاجائے توعوام نے کبھی آزمائے لوگوں سے کوئی اُمید یں وابستہ ہی نہیں رکھی ہیں ،اس کے باوجود عوام کو مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ آزمائے کو ہی آزمائیں اور ان سے ہی اُمید یں لگائیں ، لیکن یہ اُمید یں جب بر نہیں آتیں تو ایک نئی پارٹی کی امید دلائی جاتی ہے، اُس وقت بھی ایک ایسی ہی اُمید جگائی گئی تھی

کہ جب تحریک انصاف میدان میں آئی تھی، اس کے بعدتحریک انصاف کی توڑ پھوڑ کرکے استحکام پارٹی کو سامنے لایا گیا،لیکن یہ نسخہ جب کارگر نہ ہوا تو اب خاقان عباسی کومنظر سیاست پر لایا جارہا ہے،ایک نئی پارٹی کی رجسٹریشن کرائی جارہی ہے،اس پارٹی کا نام جلد ہی سامنے آجائیگا، جبکہ دوسری جانب میاں نواز شریف بھی اپنی پارٹی مسلم لیگ( ن ) کی ساکھ بحال کر نے اور اپنی سیاست بچانے کیلئے متحرک ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں ۔
اس وقت ہر آزمائی قیادت کا مقابلہ ایک ایسے سیاستدان سے ہے، جو کہ ملک میں بے پناہ مقبولیت کا حامل ہے، اس کی ایک تصویر ہی کروڑوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کردیتی ہے، وہ اپنے ایک ہی بیانیے پر سختی سے قائم ہے اور کسی بھی لحاظ سے آزمائے سے مفاہمت کی سیاست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے،جبکہ اس کے مد مقابل شاہد خاقان عباسی سے لے کرمیاں نوز شریف اور اتحادی قیادت آزمائے ہوئے لوگ ہیں

، یہ سیاست میں کچھ نیا کر نے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ ہی کوئی تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،یہ عوام میں غیر مقبول ہیں اور عوام میں مقبول قیادت سے اتنے خائف ہیں کہ اسے سامنے لانے کیلئے تیار ہیں نہ ہی اس کے ساتھ بیٹھ کر الجھے معاملات سلجھا سکتے ہیں ، یہ ایک بار پھر محاذ آرائی کی سیاست کی طرف ہی جائیں گے، جوکہ پاکستانی سیاست کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ سیاست کے بجائے ریاست بچانے کا صرف نعر ا ہی لگاتے ہیں ، جبکہ عوام دیکھ چکے ہیں کہ ریاست بچانے کا نعرا لگانے والوں نے ریاست کا کیا حال کر دیا ہے ؟اب ریاست بچانے کا نعرا چلنے والا ہے نہ ہی کوئی آزمایہ پرانا بیانیہ ہی چلے گا ، عوام اب کسی بہکائوئے اور بہلائوئے میں آنے والے نہیں ہیں ، اس ملک کے سیاسی حالات ہی نہیں بدلے ، بلکہ زمینی حقیقتیں تبدیل ہو چکی ہیں، عوام کا رخ آزمائی قیادت سے خان کی طرف ہوچکا ہے ،آزمائی قیادت کچھ بھی کر لے ، پاکستان کی نوجوان نسل خان کے ہی بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہے

اور اس کے ہی ساتھ چلنا چاہتی ہے ، اہل سیاست اور اہل ریاست کب تک عوام کی خواہش کے خلاف نبر آزمارہیں گے ، انہیں آج نہیں تو کل عوام کے فیصلے کا نہ صرف احترام کر نا ہو گا ،بلکہ عوام کا فیصلہ مانا ہی پڑے گا ۔
ہرگزرتے وقت کے ساتھ عوام کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو تا جارہا ہے ، عوام اپنے حق لینے اور اپنا فیصلہ منوانے کیلئے سڑکوں پر آنے لگے ہیں اور اپوزیشن قیادت کے زیر اثر احتجاج بھی کر نے لگے ہیں ،اگر حزب اقتدار اور طاقتور حلقوں نے مل کر جلد ہی معا ملات سلجھانے کی کوشش نہ کی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں ،جبکہ ملک کے معاشی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہ کسی بھی نوعیت کی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں،اس صورتحال میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ماضی کی تلخیاں بھلا کر بہتر مستقبل کیلئے قدم آگے بڑھائیں،

اپنی اپنی سیاست بچانے کے بجائے پاکستان بچانے کی سنجیدہ کوشش کرٰیں،سیاست کی بند گلی کا دروازہ مل کرکھو لیں،یہ بات ان کے مرتبے میں بلندی اور جمہوریت کو فروغ دینے کا باعث بن سکتی ہے، لیکن اگرسارے ہی اپنی روایتی سیاست پر قائم رہے اور ملک کو نوے کی دہائی میں لے جانے پر ہی بضد رہے تونوجوان نسل ایسی سنگین غفلت کو کبھی معاف کر پائے گی نہ ہی سیاست بند گلی سے کبھی نکل پائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں