غزہ کے مسلمان اسرائیل کیخلاف جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک
غزہ کے مسلمان اسرائیل کیخلاف جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک
ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نےکہا ہےکہ غزہ کے مسلمان اسرائیل کے خلاف جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستانی اینکرز سےگفتگو کرتے ہوئے غزہ کی صورتحال اور جہاد کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ غزہ کے مسلمان اسلام کے تیسرے مقدس مقام ( مسجد اقصیٰ) کے دفاع کے لیے جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔
ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ اگر غزہ کے لوگ جہاد نہیں کریں تو ہم پر فرض ہوجائےگا۔
اس موقع پر ذاکر نائیک نے پاکستان کے معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ مفتی تقی عثمانی کے گزشتہ دسمبر میں ایک کانفرنس میں دیےگئے فتوے کا حوالہ دیا۔
ذاکر نائیک کے مطابق مفتی تقی عثمانی نےکہا تھا کہ ہمیں جنگ بندی کے بجائے غزہ پر بمباری بندکرنےکا مطالبہ کرنا چاہیے اور غزہ کے لوگوں کو جہاد جاری رکھنا چاہیے، یہاں تک کہ فلسطین کی سرزمین سے آخری یہودی بھی نکل جائے۔
ذاکر نائیک کے مطابق ان کی نظر میں یہ ایک بہترین فتویٰ ہے، مفتی صاحب کے مطابق غزہ اور اطراف کے لوگوں کے لیے جہاد فرض ہے، اگر وہ نہیں کریں گے تو ان کے بعد جو قریب ہیں، پھر اسی طرح ہم پر بھی فرض ہوجاتا ہے۔
ذاکر نائیک نے مزید کہا کہ غزہ کے لوگ جو جدوجہد کر رہے ہیں اس نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ہم جب قرآن وحدیث پڑھتے ہیں اور صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کیسے تھے تو یقین نہیں آتا کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں کہ ایک ماں جس کا بیٹا شہید ہوگیا وہ کہتی ہیں کہ اگر میرے 10 بیٹے بھی ہوتے تو اللہ کی راہ میں قربان کردیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے جذبے اور ہمت کو جب غیر مسلم دیکھتے ہیں تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے مغربی ممالک میں لاکھوں افراد نے قرآن کا مطالعہ کیا اور اسلام قبول کیا۔ غزہ کے لوگ جہاد کے ساتھ دعوت کا کام بھی سرانجام دے رہے ہیں اور ہمیں بھی اسلام سکھا رہے ہیں، اسے کہتے ہیں ایک تیر سے تین شکار۔
ممالک کو نیٹو طرزکا اتحاد تشکیل دینا چاہیے: ڈاکٹر ذاکر نائیک
فلسطین کی صورتحال پر مسلم دنیا کے اقدامات کے حوالے سے سوال پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ مسلمان ممالک کو نیٹو کی طرح کا اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ نیٹو کے 32 ممالک ہیں ، اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہو تو تمام ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کو بھی نیٹو کے اصولوں پر مبنی ایک اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ اس طرح مسلمان ممالک زیادہ طاقت ور ہوں گے، لیکن افسوس کے مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر مزید جواب دیتے ہوئے ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہر مسلمان کم ازکم دعا تو ضرور کرسکتا ہے اور اس کے لیے بہترین وقت تہجدکا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پرامن احتجاج کرنا چاہیے، احتجاج کافی مؤثر ہوتا ہے۔
ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ مسلمانوں کو انفرادی طور پر جتنا بھی ہوسکے فلسطینیوں کی مالی امداد کرنی چاہیے، چاہے 100 روپے ہوں یا 1000 روپے، اللہ تعالیٰ نیت کو دیکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمات کرنے چاہئیں۔ مسلمانوں کے میڈیا کو چاہیے کہ فلسطین کے حوالے سے آواز بلند کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر مسلمان قرآن و سنت پر عمل کریں گے تو اللہ کی مدد اور زیادہ آئے گی۔ اس کے علاوہ اگر مسلمان اسلامی نظام نافذ کریں اور خلافت کا قیام کریں تو ان شاءاللہ اس طرح کے مسائل کبھی نہیں ہوں گے۔