اگر عدلیہ نے ڈیلیور نہ کیا تو جو حاصل کرنا چاہتے ہیں نہیں کرپائیں گے: چیف جسٹس
چارسدہ: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہےکہ وقت آگیا ہےکہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور کرنا پڑے گا اور اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کرے گی تو ہم شاید جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں۔
چارسدہ میں جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انسٹی ٹیوشن عمارت سے نہیں بنتے، یہ شخصیات سے بنتے ہیں، دنیا میں قومیں علم، لیڈرشپ، عدالتی نظام اور انسٹی ٹیوشنز سے ترقی کرتی ہیں، جو قومیں ایڈہاک ازم پر چلتی ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے ترقی کی ایک مثال ہوتے ہیں، وقت آگیا ہےکہ اب ہماری عدلیہ کو ڈیلیور کرنا پڑے گا، اگر عدلیہ ڈیلیور نہیں کرے گی تو ہم شاید جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ نہ کرپائیں۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ہمارے قانون بہت پرانے ہیں، ان قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا مقننہ کاکام ہے، ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا، سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا، وہ کیوں نہیں ملتا، اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پارہا۔
چیف جسٹس پاکستان نے مقدمات کی تاخیر پر بار سے تجاویز طلب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہیں ان کا حل دیاجائے تاکہ اسی میں رہتے ہوئے لوگوں کو جلد انصاف مہیا کرنے میں سرخرو ہوسکیں۔
ان کا کہنا تھاکہ آج بھی کئی ایسے مقدمات کو سپریم کورٹ میں دیکھ رہا ہوں جو 1985 میں دائر ہوئے، اب ان لوگوں کو کیا جواب دوں، کتنی دہائیوں کے باوجود ان کو انصاف نہیں ملا، انصاف کا تاخیر سےملنا انصاف کی موت ہے، یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نےمزید کہا کہ وقت آگیا ہےکہ ہمیں اپنے بچوں اور قوم کے لیے قربانی دینا پڑے گی، دیانت داری، بہترین صلاحیت اور ایمانداری کےساتھ رات دن محنت کریں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھاکہ مجھے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تعاون فراہم کریں، جو سوموٹو ایکشن لیے وہ بنیادی حقوق سے منسلک ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کے بغیر دنیا میں کوئی قوم اور ملک ترقی نہیں کرسکتا، کل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے پوچھا کتنے نئے تعلیمی ادرے قائم کیے، اس پر کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تعلیم بنیادی حق ہے اسے کس نے نافذ کرنا ہے، ان حقوق کے لیے میرا ساتھ دیں، میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں آپ سے تعاون اور اس نظام کو درست کرنے میں مشاورت چاہتا ہوں، بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر وقت حاضر ہوں، سپریم کورٹ کے بینچز میں قانون کی تبدیلی کرکے بینچ نہیں بٹھا سکتا، انسانی حقوق کےمعاملے میں کہیں بیٹھ کر کوئی بھی فیصلہ کرسکتا ہوں۔