غیر سرکاری تنظیم سنٹر فا ر پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انشیٹیوز کے عہدیداروں نے کہا کہ بجٹ میں عوام کو براہ راست ٹیکس کی مد میں دیا 132

بجٹ میں عوام کو براہ راست ٹیکس کی مد میں دیا.غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انشیٹیوز

بجٹ میں عوام کو براہ راست ٹیکس کی مد میں دیا.غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انشیٹیوز

اسلام آباد(فائزہ شاہ چیف رپورٹرنیوزواچ) نیوالا ریلیف پاکستانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے جو کہ ایک خوش آئندہ بات ہے لیکن ٹیکس ریلیف سے ہونیوالے مالیاتی خسارہ کو کم کرنے کیلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں

ایک اندازے کے مطابق10لاکھ ٹیکس دہندگان میں سے آدھے اس فہرست سے باہر ہو سکتے ہیں کیونکہ اب قابل ٹیکس آمدنی 4لاکھ سے بڑھا کر12لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنیوالے افراد پر40لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد خریدنے سے روکنے جیسے اقدامات پاکستانی ماحول میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کا باعث نہیں بن سکتے

ایف بی آر کو زیادہ محتاط اور سائنسی انداز میں کام کرنا پڑیگا تاکہ وہ نہ صرف مالی خسارے کو کم کرنے پائیں بلکہ گذشتہ سال کی نسبت13فیصد کا ہدف حاصل کر سکیں۔شفافیت اور احتساب کے بلند بانگ دعووں کے باوجود وفاقی حکومت نے درست اقدام کرنے میں ناکام ہو گئی ہے

جس کی واضح مثال پاکستان انفارمیشن کمیشن کو تشکیل نہ دینا ہے۔کمیشن ایک اپیلیٹ فورم ہے جسے معلومات تک رسائی کے قانون2017کے تحت بنایا جانا تھا جو کہ گذشتہ سال اکتوبر میں نافذ کیا گیا۔ اس کمیشن کے قیام کیلئے مقررہ تاریخ پہلے ہی گذر چکی ہے جبکہ حکومت کی طرف سے کمیشن کی تشکیل کچھ واضح نہیں ہو رہا کیونکہ اس کمیشن کیلئے بجٹ مختص نہ کیا جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے

کہ حکومت اگلے مالی سال میں بھی کمیشن کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہے۔ غیر سرکاری تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انشیٹیوز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرعامر اعجاز نے کہا کہ وفاقی حکومت کے وعووں اور وعدوں کے باوجود بجٹ میں تین نئے ٹیکس متعارف کرائے گئے ہیں (غیر ملکی کریڈٹ کارڈ ٹیکس،گفٹ ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات پر ود ہولڈنگ ٹیکس۔وفاقی حکومت کا شعبہ تعلیم کیلئے100فیصد کا خواب آئندہ بجٹ میں اسکے لیے مختص رقم سے شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پرائمری تعلیم کیلئے2034ملین روپے رکھے گئے ہیں جو کہ سابقہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینہ جات 1843ملین روپے سے 10فیصدزائد ہیں۔ جبکہ پرائمری ور سیکنڈری سکولز کے لیے مجموعی رقم مختص کی گئی ہے جو کہ بجٹ بنانے کا غیر شفاف طریقہ ہے۔اسکے علاوہ مجوزہ تخمینہ جات کے ساتھ پرائمری اور سیکنڈری سکولز کو موثر طریقہ سے چلاناممکن نہیں ہوگا-مطالعہ سے یہ سامنے آیا ہے کہ پرائمری اور سیکنڈری سکولز کے معاملات کو بہتر طورپر چلانے کیلئے نان سیلری بجٹ کی مد میں 30فیصد اضافہ ضروری ہے۔شعبہ تعلیم کے بجٹ میں 10فیصد اضافے کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں میں کیے گئے10 فیصد اضافہ کی نذر ہو جائیگا اس طرح نان سیلری بجٹ کیلئے رقم انتہائی قلیل رہ جائیگی۔اگر گذشتہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینہ جات کو دیکھا جائے تو صرف آپریٹنگ اخراجا ت میں 2.7فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن سکولوں کے فیزیکل اثاثوں کیلئے مختص رقم میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔گذشتہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینہ جات میں 9.7 ملین روپے آئندہ سال کیلئے573000روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ94فیصد کم ہے۔ثانوی تعلیم کیلئے بھی مختص شدہ رقم پرائمری سے مختلف نہیں ہے سال2018-19کیلئے637ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو اس سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات سے15فیصد زائد ہیں۔یہاں بھی ملازمین کے اخراجات میں 19فیصد اضافہ ظاہر کر رہے ہیں لیکن سکولوں کے آپریٹنگ اخراجات کیلئے مختص بجٹ میں 4فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے اوراس سال کے111ملین کے مقابلہ میں آئندہ سال کیلئے107ملین مختص کیے گئے ہیں جبکہ سکولوں کے فیزیکل اثاثہ جات کی خرید کیلئے 94فیصد بجٹ کم کر دیا گیا ہے۔

سیکنڈری ایجوکیشن کیلئے 2135ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ2017-18میں 1752ملین روپے تھے-اس طرح بجٹ مں 22فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔لیکن یہاں بھی ملازمین سے متعلق اخراجات میں 26فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے اور2017-18میں مختص رقم1434ملین روپے کے مقابلہ میں 2018-19میں 1811 ملین روپے کا اضافہ کیا گیا۔ پرائمر ی اور مڈل سکولوں کی طرح ہائی سکولوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے بھی کوئی خاطر خواہ بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔ آپریٹنگ اخراجات کیلئے سال2017-18کے279ملین روپے کے مقابلہ میں 3فیصد اضافہ کیساتھ آئندہ سال کیلئے285ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے آئندہ مالی سال کیلئے1.2ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ سال2017-18میں مختص شدہ رقم3.55ملین روپے کے مقابلہ میں 66فیصدکم ہیں۔انہوں نے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بجٹ سازی کی انتظامیہ راز داری برتتی ہے جہاں کبھی بھی شراکت داروں (Stakholders) کو بجٹ سازی کے عمل میں شامل کرنے کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔بجٹ سازی کا عمل اعلانیہ ہونا چاہیے اور اس میں تمام شراکت داروں کی شمولیت کو یقینی بنانا چاہیے تمام شراکت داروں کی بجٹ تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانے کیلئے اقدامات ہونے چاہییں اور ایک جامع رپورٹ مرتب کرکے ان میں ان تجاویز کو شامل کیا جانا چاہیے

۔بلاک ایلوکیشن (Block Allocation)بجٹ سازی کے ذمہ داران کی کمزور منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ رقم دستیاب ہونے کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کیلئے مطلوبہ منصوبہ سازی نہیں کی گئی۔بلاک ایلوکیشن کے علاوہ دیگر تمام غیر شفاف مختص رقوم جیسے عمل کوروکا جائے یہ صوبوں کا وفاق پر اعتماد میں اضافہ کریگا۔وفاقی حکومت بجٹ دستاویز تک عام آدمی اور سول سوسائٹی کو رسائی دینے میں ہمیشہ گریزاں رہی ہے حتیٰ کہ اسمبلی میں بجٹ پیش کر دیے جانے کے باوجود بھی بجٹ عام آدمی کیلئے دستیاب نہیں تھا

بجٹ میں دلچسپی رکھنے والے اداروں اور افراد کو انکے مطلوبہ فارمیٹ میں بجٹ فراہم کرکے انکی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔بجٹ کی پرنٹنگ ایک مہنگا عمل ہے اوراسکی پرنٹنگ پر10کروڑ روپے کے اخراجات کیے جاتے ہیں

جبکہ چند کاپیاں ہی استعمال کی جاتی ہیں باقی تمام ضائع ہو جاتی ہیں۔جس کی واضح مثال اپوزیشن کی جانب سے بجٹ سیشن کے دوران بجٹ کی کاپیوں کو پھاڑنا ہے۔ بجٹ دستاویزات کی پرنٹنگ کو ختم کرکے دیگر ذرائع کو شامل کرتے ہوئے اسکی تشہیر کیلئے اسے ویب سائٹس پر اپ لوڈ کیاجائے۔ٹیکس ڈائریکٹری کا شائع کرنا شفافیت کی جانب ایک اچھا قدم تھا لیکن پچھلے سال سے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اسے نہ صرف جاری کیا جانا چاہیے بلکہ ریجن اورعلاقہ کے حساب سے ٹیکس کی وصولیوں کی تفصیل بھی اس میں فراہم کی جائے۔ایف بی آر کے پاس یقینا یہ اعدادوشمار ہوں گے جو عوام کیساتھ شیئر کیے جائیں تاکہ عوام ملک کی بڑی مارکیٹوں کی جانب سے دیے گئے ٹیکس بارے آگاہ جان سکیں۔ مثلاً لوگوں کو یہ بتانے میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ بلیو ایریا اسلام آباد میں یا لبرٹی مارکیٹ لاہور سے کتنا ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔بجٹ سازی کے عمل میں سیٹیزن بجٹ ایک اہم دستاویز ہے وفاقی حکومت چاہیے کہ وہ سیٹیزن بجٹ کو جاری کرے تاکہ عام آدمی یہ جان سکے کہ بجٹ میں اسکے لیے کیا ہے۔آئین کے آرٹیکل160کے تحت ساتویں این ایف سی ایوارڈ فارمولا کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے موجودہ فارمولا2010میں بنایا گیا تھا جسے اب8سال گذر چکے ہیں۔صوبوں نے اس فارمولا پر اپنے اپنے تحفظات کا اظہا ربھی کیا ہے-انہیں وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر سننا اور مطمئن کرنا ضروری ہے۔ہم ٹیکس ایمنسٹی سکیم پر بھی سوال اٹھا نا چاہتے ہیں جو ہر سال پیش کی جاتی ہے یہ ان ایماندار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جو کہ اپنی آمدنی کا25فیصد سے زائد ٹیکس اداکرتے ہیں۔ایسی سکیمز پر پابندی عائد کرکے ٹیکس چھپانے والوں کو پکڑا جانا چاہیے اس طرح کی سکیمیں حکومتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہیں جنہیں چاہیے کی تمام قابل ٹیکس آمدنی کے حاصل افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں