انڈونیشیا میں قید کینسر کےمریض پاکستانی ذوالفقار علی انتقال کر گئے
انڈونیشیا میں سزائے موت کے قیدی اور کینسر کے مریض پاکستانی ذوالفقار علی انتقال کر گئے۔
ذوالفقار علی کو حالت بگڑنے پر انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے محض چند گھنٹے ہیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم غیر سرکاری تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کے مطابق ذوالفقار علی کا انتقال ہو گیا ہے
It is with the heaviest heart that we announce the passing away of Zulfiqar Ali. A Pakistani citizen who has been declared innocent for 8 years, and been innocent since the moment he was arrested. He is mourned by his family and lawyers who fought for his life until the very end.
— Justice Project Pakistan (@JusticeProject_) May 31, 2018
جے پی پی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں ذوالفقار علی کی حالت سے آگاہ کرتے ہوئے اپیل کی تھی کہ اس پیغام کو اتنا پھیلایا جائے کہ یہ انڈونیشین صدر جوکووو تک پہنچ جائے اور اس کی پھانسی کی سزا ٹل جائے لیکن وہ اس سے قبل ہی انتقال کر گئے۔
اس حوالے سے FreeZulfiqar# (ذوالفقار کو رہائی دی جائے) کے پیش ٹیگ کے ساتھ مہم چلائی گئی
URGENT: Zulfiqar Ali needs your help. He is in the ICU, and is no longer responsive. His doctors have given him hours to live. Help us ensure his wrongful conviction is thrown out before he passes away by tweeting in support so we can reach President @jokowi #FreeZulfiqar pic.twitter.com/C1k4K6XSou
— Justice Project Pakistan (@JusticeProject_) May 31, 2018
واضح رہے کہ جنوری 2018 میں پاکستان نے انڈونیشیا سے ذوالفقار علی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاف کرنے کی اپیل کی تھی۔
ایوان صدر میں پاکستان کے دورے پر آئے انڈونیشین صدر جوکو وڈوڈو سے ملاقات کے دوران صدر ممنون حسین نے اپنے انڈونیشین ہم منصب سے پاکستانی شہری ذوالفقار علی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاف کرنے کی اپیل کی۔
جس پر انڈونیشین صدر جوکو وڈوڈو کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی کا معاملہ قانونی ہے لیکن پاکستان کی درخواست پر ہمدردی سے غور کیا جائے گا۔
ذوالفقار علی کون ہے؟
52 سالہ ذوالفقار علی لاہور کے رہائشی اور 5 بچوں کے والد ہیں جو 17 سال قبل روزگار کی تلاش میں انڈونیشیا گئے تھے۔
21 نومبر 2004 کو انڈونیشیا کے مغربی صوبے جاوا میں انہیں 3 سو گرام ہیروئن رکھنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا جو کہ ایک بھارتی شہری نے ان پر عائد کیا تھا جو بعد میں واپس لے لیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ذوالفقار علی کو 2005 میں ہیروئن رکھنے کے جرم میں پہلی مرتبہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق ذوالفقار علی کو نومبر 2004 کوحراست میں لیا گیا تھا اور تفتیش کے دوران ذوالفقار پر تشدد کرکے بیان لیا گیا۔
تشدد کی وجہ سے ذوالفقار علی کو معدے اور گردوں کا آپریشن بھی کرانا پڑا تھا، مقدمے کے دوران انہیں ایک ماہ تک کوئی وکیل مہیا نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستانی سفارت خانے کے کسی اہلکار نے ان سے رابطہ کیا۔
ذوالفقار انڈونیشیا کی مقامی زبان سے ناواقف ہیں اور انگریزی بھی تھوڑی بہت جانتے ہیں۔ انہیں تمام تر عدالتی کارروائی کے دوران انگریزی میں محدود معاونت ہی حاصل ہو پائی۔
انڈونیشیا کی پولیس ذوالفقار کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کے لئے کسی بھی قسم کے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی اس کے باوجود انہیں موت کی سزا سنادی گئی۔
جولائی 2016 میں بھی جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے ذوالفقار کی رہائی کے لیے ملک گیر مہم چلائی تھی، جس کے نتیجے میں دونوں حکومتوں کے درمیان اس معاملے پر اعلیٰ سطح کی سفارتی بات چیت ہوئی تھی۔