’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں کے بارے میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی تحقیق کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جعلی خبریں بہت تیزی سے اور بہت دور تک پھیلتی ہیں۔ اس حد تک کہ صحیح خبریں بھی ان کے سامنے ختم ہو جاتی ہیں۔
گذشتہ دس برسوں میں انگریزی زبان میں 30 لاکھ افراد کی سوا لاکھ سے زیادہ ٹویٹس پر تحقیق کے بعد محققین کا دعویٰ ہے کہ جعلی خبریں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں۔
تحقیقی میگزین ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ ٹوئٹر پر پھیلنے والی جعلی خبروں پر مبنی ہے لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ نتائج فیس بک اور یوٹیوب سمیت سبھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے صحیح ہیں
اس ریسرچ کی نگرانی کرنے والے میساچوسیٹس یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے سوروش ووشوگی نے بتایا کہ ’ہماری ریسرچ میں یہ واضح ہے کہ یہ انسانی مزاج کی کمزوری ہے کہ وہ ایسا مواد پھیلائے۔‘
ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افواہیں پھیلانا یا ان پر یقین کر لینا انسانی مزاج کا حصہ ہے اور سوشل میڈیا سے انھیں ایک ذریعہ مل گیا ہے
اس رپورٹ کے ساتھ ایک اور مضمون بھی شائع کیا گیا ہے جسے کئی مشہور ماہر سیاسیات نے مل کر لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ ’اکیسویں صدی کی خبروں کے بازار میں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ نظام آخر کیسا ہو جس میں جھوٹ کے بجائے سچ کو بڑھاوا مل سکے؟
سوروش ووشوگی کے مطابق ایک ایسے نظام کو لانا آسان نہیں ہوگا۔ جھوٹی خبر، سچی خبر کے مقابلے چھ گنا زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ تجارت، دہشتگردی، جنگ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی خبریں بہت زیادہ پسند اور شیئر کی جاتی ہیں لیکن سیاست سے متعلق جعلی خبریں زیادہ آسانی سے ٹرینڈ کرنے لگتی ہیں
ماضی میں بھی فیک نیوز پر کئی بار تحقیق ہوئی ہیں لیکن وہ تمام تحقیقیں کسی خاص واقعہ پر مبنی تھیں۔ مثال کے طور پر بم دھماکے یا قدرتی حادثات کے بارے میں۔
یہ تازہ ریسرچ سنہ 2006 سے سنہ 2016 کے دوران انگریزی میں کی جانے والی ٹویٹس پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے یہ بہت وسیع ریسرچ ہے
سچ کا معنی بیان کرنا اور اس کی جانچ کرنا ایک مشکل کام ہے۔ محقیقین نے اس کے لیے حقائق کی تصدیق کرنے والی کئی ویب سائٹس کی مدد لی اور ان ویب سائٹس کی مدد سے انھوں نے سینکڑوں ایسے ٹویٹس نکالیں جو جعلی تھے۔ اس کے بعد انھوں نے سرچ انجن کی مدد سے یہ معلوم کیا کہ یہ جعلی خبریں کس کس طرح پھیلیں۔
انھوں نے اس طرح ایک لاکھ 26 ہزار ٹوئیٹس نکالے جنھیں 45 لاکھ مرتبہ ری ٹویٹ کیا گیا۔
ان میں سے چند میں دوسری ویب سائٹس کی جعلی خبروں کے لنک بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اصل اور صحیح خبروں کے پھیلنے کے بارے میں بھی تحقیق کی گئی۔
سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد یہ نتیجے اخذ کیا کہ جعلی خبریں زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہیں اور ان کے پھیلنے کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے۔