کراچی میں جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے لواحقین اور لاپتا افراد کے اہل خانہ نے دھرنا دیا جس میں تمام جعلی مقابلوں کی تحقیقات اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے ساتھ ملزموں جیسا سلوک کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
دھرنے کے شرکاء نے سندھ حکومت پر نقیب قتل کیس پر اثر انداز ہونے اور راؤ انوار کے ساتھیوں کو ملیر میں تعینات کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔
جسٹس فار نقیب ریلی سہراب گوٹھ سے کراچی پریس کلب تک نکالی گئی۔ احتجاجی مظاہرے میں نقیب اللہ محسود کے والد اور محسود قبائل کے عمائدین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرین نے بینرز اور سیاہ جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے جب کہ مظاہرین کی جانب سے نقیب اللہ محسود کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
گرینڈ جرگہ نے احتجاجی مظاہرے میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ راؤ انوار کے ساتھ ملزم جیسا برتاؤ کیا جائے اور کیس کے مفرور تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کے والد سے ملاقات کی تھی۔
ملاقات میں آرمی چیف نے نقیب اللہ محسود کے والد کو یقین دلایا تھا کہ پاک فوج نقیب اللہ کے لیے انصاف کے حصول کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی۔
نقیب اللہ قتل کیس
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
21 مارچ کو مقدمے میں نامزد ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے سپریم کورٹ میں پیش ہوجانے اور گرفتاری کے بعد عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو کیس کی تفتیش جلد مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے نقیب قتل ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا تھا۔