کمیٹی میں روی شنکر کو شامل کیے جانے پر اویسی، ہنومان گڑھی اور نرموہی اکھاڑہ اعتراض، مصالحتی فارمولے کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کے اراکین نے خوش آئند قدم قرار دیا۔
نئی دہلی(چیف اکرام الدین)سپریم کورٹ نے ایودھیا کے رام جنم بھومی بابری مسجد زمین تنازع کے پرامن تصفیے کی کوشش کے طور پر ثالثی کو اہمیت دیتے ہوئے جمعہ کو ثالث مقرر کردئے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئین بنچ نے عدالت عظمی کے سابق جج ایف ایم كلیف اللہ کی صدارت میں تین رکنی مصالحتی کمیٹی قائم کی، جس میں سماجی کارکن اور آرٹ آف لیونگ کے بانی شري شري روی شنکر اور سینئر وکیل رام پنچو شامل ہوں گے عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ضرورت پڑنے پر مزید لوگوں کو بھی کمیٹی میں شامل کیا جا سکتا ہے کمیٹی قانونی مدد بھی لے سکتی ہے جسٹس گگوئی نے آئینی بینچ کی جانب سے حکم سناتے ہوئے کہا کہ ثالثی کا عمل خفیہ رہے گا اور اس پر مکمل طور پر میڈیا رپورٹنگ پر پابندی رہے گی کورٹ نے ایک ہفتے میں تمام فریقوں سے بات چیت کے عمل کو شروع کرنے اور اس کے لئے سارا انتظام کرنے کے لئے اترپردیش حکومت کو حکم بھی دیا ثالثی کا عمل فیض آباد میں شروع ہوگا اور کمیٹی کو چار ہفتے میں پیش رفت رپورٹ سونپنی ہوگی چیف جسٹس نے حکم میں کہا ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ثالثی کا راستہ اپنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں آتی ہے آئینی بینچ میں جسٹس گگوئی کے علاوہ ایس اے بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن،جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایس عبد النظیر شامل ہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفر یاب جیلانی نے اس قدم کو خوش آئند قرار دیا ہے انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر مصالحت کی کوشش ہوتی ہے تو ہم اس میں تعاون کریں گے اب ہمیں جو بھی کہنا ہے وہ مصالحت کے لیے تشکیل شدہ پینل میں کہیں گے باہر کسی بھی طرح کی بات ہم نہیں کرنا چاہتے مہنت رام داس نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خوشی ظاہر کی اور کہا کہ ہم خوش ہیں کہ عدالت بھی اس مسئلہ کا حل جلد تلاش کرنا چاہتا ہے سپریم کورٹ کا فیصلہ استقبال کرنے لائق ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس مصالحت کا عمل آج سے ہی شروع ہو جامع مسجد کی جانب سے فریق حاجی محمود کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ مسئلہ کا حل جلد نکلنا بہتر ہے اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کر لیا جائے تو اچھا ہوگا مسلم پرنسپل لا بورڈ کے رکن اور ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے جس میں شری شری روی شکنر سمیت تین ثالثی کمیٹی تشکیل دی گئی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ‘ شری شری روی شنکر نے اس سے قبل ایک متنازعہ بیان دیا تھا جس میں انہوں نے بھارت کو شام میں بدلے جانے کی بات کی تھی، لیکن اب جب انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے ثالث منتخب کیا گیا ہے تو ان سے بس متوازی فیصلے کی امید ہی کی جاسکتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی قدر کرتے ہیں اور کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے بھی چاہے ثالث منتخب کرے اسدالدین کا کہنا ہے ‘مسلم پرسنل لا بورڈ اس بارے میں جو بھی نظریہ رکھتی ہے وہ ان کے ترجمان ہی بتا سکتے ہیں انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ جس شخص نے اس سے قبل ایودھیا معاملے میں متنازع بیان دیا ہو وہ متوازی فیصلہ کیسے کرسکتا ہے دوسری جانب روی شنکر کو کمیٹی میں شامل کیے جانے پر نرموہی اکھاڑہ اور ہنومان گڑھی کیطرف سے بھی زبردست مخالفت ہورہی ہے اور انھیں یہ لوگ ثالث تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مولانا ابوطالب رحمانی رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ معزز سپریم کورٹ سے یہ درخواست تمام فریقوں کی جانب سے کی جانی چاہئے کہ ایک ماہ کی مدت اور فیض آباد میں ہی بات چیت ہو اس پر نظر ثانی فرمائیں کیونکہ دونوں طرف سے ۲۷ جماعتیں عدالت میں فریق ہیں ایک ایک جماعت سے کئ بار گفتگو کرنی ہوگی جسمیں کم از کم چھ ماہ کا وقت چاہئے رکن مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد رشید فرنگی محل نے کہا کہ بات چیت کا سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہونا سب سے اچھی بات ہے انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں سیاسی مداخلت نہ ہو تو ضرور کوئی حل نکل سکتا ہے انہوں نے کہا کہ ملک کا ہر باشندہ چاہتا ہے کہ اس تنازع کا حل نکلے خیال رہے کہ ثالثی کمیٹی میں تین اراکین کو شامل کیا گیا ہے ثالثی کمیٹی کے اراکین میں شری شری روی شنکر کے ساتھ شری رام پنچو کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ اس کمیٹی کی سربراہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس ایف ایم کلیف اللہ کریں گے ثالثی کمیٹی کی میٹنگ اگلے ہفتہ فیض آباد میں ہوگی جس کے بعد 8 ہفتوں میں صلح کی رپورٹ سپریم کورٹ کو سونپی جائے گی ۔