اپوزیشن زندگی کی علامت احتجاج !
تحریر:شاہد ندیم احمد
حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کا آخری جلسہ لا ہور میں ہونے جارہا ہے ،اس جلسے میں استعفوں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا جا سکتا ہے جبکہ وزیراعظم نے اپوزیشن تحریک کے بارے میں اپنے اِس مستقل موقف کا اعادہ کیا ہے کہ یہ لوگ احتساب سے بچنے کے لئے این آر او لینا چاہتے ہیں ،تاہم مجھے کرسی چھوڑنا بھی پڑی تو چھوڑ دوں گا، مگر اپنی کرسی بچانے کے لئے اپوزیشن قیادت کو این آر او دے کر ملک سے غداری نہیں کروں گا۔
پی ڈی ایم کو لاہور جلسے کی اجازت نہیں دیں جائے گی، لیکن رکاوٹ بھی نہیں ڈالیں گے، تاہم جلسہ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔ حکومتی وزراء بھی اپوزیشن قیادت پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے جلسوں کو عالمی وبا کورونا کے پھیلائوکا باعث ٹھیراتے ہوئے عوام دشمنی قرار دے رہے ہیں،جبکہ پی ڈی ایم قائدین نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگرجلسے میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا ۔حکومت کی اینٹ کا جواب اپوزیشن پتھر سے دے یا جلسے ، لا نگ مارچ کرتی پھرے ،اس کی زندگی کی علامت تو احتجاج ہی بنتا جارہا ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں
کہ ملک کو داخلی اور خارجی محاذوں پر نہایت سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے، ملک میںقومی یگانگت اور یکجہتی ہماری اولین ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے حکومت اور اپوزیشن کی اب تک پوری مدت قومی سطح پر شدید تقسیم اور تفریق میں گزری ہے،بل خصوص اپوزیشن جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام گزشتہ دو برس سے تحریک انصاف حکومت کے خلاف کسی بھی انتہائی اقدام پر تیار دکھائی دیتی ہیں، ان دونوں جماعتوں کو اقتدار میں کسی سطح پر شراکت حاصل نہیں‘
اس لئے ان کی بلا سے کہ سارا جمہوری ڈھانچہ زمین بوس ہو جائے یا جلسوں میں شرکت کرنے والے معصوم غریب شہری کورونا کے ہاتھوں مارے جائیں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ،البتہ پیپلز پارٹی پارلیمانی جمہوری نظام کے موجودہ ڈھانچے کا حصہ ہے،اس لیے پارٹی کے مدبر رہنما آئین اور قانون کے مطابق سیاست کو ترجیح قرار دیتے آئے ہیں،چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی شعلہ بیانی کے بباوجود کبھی جمہوری اقدار کی نفی نہیں کی ہے ، اگر پی ڈی ایم غیر آئینی طریقے سے حکومت ہٹانے کے لئے کوئی انتہائی اقدام کرتا ہے تو پیپلز پارٹی اس کا حصہ رہ کر اپنے اصولی موقف کو داغدار کرنے سے گریز کا رستہ اپنا سکتی ہے۔
اس وقت ملک میں ایسے حالات نہیں کہ حکومت کو ہٹانے کی مہم چلائی جائے،لیکن پی ڈی ایم قیادت اپنے مفادات کے پیش نظر ملکی مفاد کو پس پشت ڈال رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت سے شکایت کے باوجود عام آدمی ابھی تک اپوزیشن کی احتجاجی تحریک میں شامل نہیں ہو پایاہے۔ اپوزیشن نے جب ملک گیر جلسوں کا اعلان کیا تو بعض حلقوں کا خیال تھا کہ حکومت جلسے روکنے کی کوشش کرے گی
،اس سے اپوزیشن کو سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا،مگر پی ڈی ایم جلسوں کے سیاسی نتائج حکومت کے لئے کوئی خطرہ پیدا نہیں کر سکے ہیں۔پی ڈی ایم اپنے آخری جلسے میں آئندہ کا لائحہ عمل واضح کرنے جارہی ہے ،لانگ مارچ اور استعفوں کے اعلان کے باوجود حکومت دبائو میں آتی نظر نہیں آرہی ہے،تاہم ملک میں جاری مسلسل سیاسی کشیدگی قومی سطح پر شدید بے یقینی اور مستقبل کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کا سبب ضرور بن رہی ہے۔
اس میں شک نہیں
کہ پی ڈی ایم اپنی کشتیاں جلا کر آگے بڑھ ر ہے ہیں، تاہم اس کے باوجو د آنے والے دنوں میں محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن اتحاد سے چھوٹی جماعتیں ایک ایک کرکے علیحدہ ہوتی جائیں گی اس لیے پی ڈی ایم بہت تیزی سے حکومت کے ساتھ تصادم کی صورتحال پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، اگردونوں میں ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں کسی ایک کا نقصان تو ہونا ہی ہے ، اپوزیشن یا پھر حکومت کو گھر جانا ہو گا۔ حکومت کے لیے اچھی
خبر ہے
کہ اپوزیشن اسی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی ، اپوزیشن کو کامیابی ملنا مشکل نظر آتا ہے، کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا سب سے بڑا مقصد عوام نہیں، حکومت گرانا ہے ،لانگ مارچ اور احتجاجی تحریکیں ذاتی مقاصد کیلئے نہیں ،عوام کے حقوق کے حصول میں کا میاب ہوتی ہیں،عمران خان بھی لانگ مارچ اور پھر دھرنا کرکے حکومت گرانے میں کامیاب نہیںہو سکے تھے۔،اسی طرح پی ڈی ایم احتجاجی تحریک کوبھی کامیابی نہیں مل سکتی ، جس کی اُمید مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام قیاد ت لگائے بیٹھے ہیں۔
یہ امر قابل مذمت ہے کہ پی ڈی ایم قیادت بات جمہوریت کی کرتے ہیں،مگر حکومت گرانے کیلئے کوئی بھی غیر آئینی طر یقہ اختیار کرنے کیلئے تیار ہیں،جمہوریت میں غیر آئینی طریقے سے حکو مت نہیں جائے گی،اس لیے پی ڈی ایم اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اقتدار حاصل کرنے میںناکام ہو گی اور اس کے بعد احتجاج کرنے والوں کا کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ خود بخود ختم جائے گا۔
حکومت کے لئے آنے والے دنوں میں اچھی ہی خبریں ہیں اور سب سے اچھی خبر ہوگی کہ آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر بغیر کسی رکاوٹ کے ہوں گے۔ تحریک انصاف سینیٹ انتخابات میں ناصرف کامیابی حاصل کرے گی، بلکہ بھاری اکثریت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔تحریک انصاف حکومت کومستقبل میں کوئی خطرہ نہیں ،کیو نکہ حکومت ،فوج اور عوام ایک پیج پر ہیں،البتہ ا پوزیشن کا احتجاج جاری رہے گا ،کیونکہ اپوزیشن کی زندگی صرف احتجاج سے جڑی ہے اور اب احتجاج ہی ان کی زندگی کی علامت بن گیا ہے۔