انسانی حقوق کا عالمی منشور
شہزادافق Ufaq0786@gmail.com
یہ قانون عالمی قانون کہلاتاہے اور دنیا بھر میں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے روک تھام کے بنایا گیا تاکہ کوئی ظلم وستم نہ ہوسکے،اورجہاں ایسا ہوتا ہے وہاں یہ قانون واقعی حرکت میں آجاتاہے مگر جہاں اسےاپنا مفاد نظرآتا ہے،کشمیر ،فلسطین ہونے والے ظلم پر خاموشی چھا جاتی ہے۔آزادی کانغمہ گانے والوں کو کیا زندان کشمیری نظر نہیں آتے۔؟ فلسطین میں پانی کی طرح بہنے والا لہو کیانظر نہیں آتا؟
اگر عالمی قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو کشمیر انسان نہیں ہیں ،فلسطینی انسانیت کے دائرے سے باہر ہیں؟افسوس صد افسوس یہ عالمی قانون نہیں شاید مفاد پرست قانون ہے ۔اس عالمی قانون سوالیہ نشان بن چکا ہے۔اس قانون کے دعوے محض دعوؤں تک محدود ہیںحقیقت سے دوردور تک کوئی واسطہ نہیں۔اس عالمی قانون کا مطالعہ کریں اور خود فیصلہ کریں ۔۔۔۔!
(10 دسمبر1948ء کو اقوام عالم نے انسانی حقوق کامندرجہ ذیل عالمی منشور منظور کیا)
دفعہ – 1
تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوتی ہے۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہیے۔
دفعہ۔2
ہر شخص ان تمام آزادی اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلان میں بیان کیے گئے ہیں اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے قومیت معاشرے دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس کے علاوہ کسی بھی شخص کے ساتھ اس کے علاقے یا ملک کی سیاسی عملی یا بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔خواہ وہ ملک میں علاقہ آزاد ہو یا تولیتی ہوں یا غیر مختیار و اقتدار اعلی کے لحاظ سے کسی اور بندش کا پابند ہو۔
دفعہ۔3
ہر شخص کو اپنی آزادی زندگی اور تحفظ کا حق ہے۔
دفعہ۔4
کوئی شخص غلام یا لونڈی بنا کر نہ رکھا جا سکے گا۔غلامی اور بردہ فروشی چاہے اس کی کوئی بھی شکل و ممنوع ہو گی۔
دفعہ۔ 5
کسی شخص کو جسمانی اذیت،یا ظالمانہ انسانیت سوز،یا ذلت آمیز سزا نہیں دی جائے گی۔
دفعہ۔ 6
ہر شخص کا حق ہے کہ ہر جگہ اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔
دفعہ۔7
قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور سب بغیر کسی تفریح کے قانون کے اندر امان پانے کے برابر حقدار ہیں۔ اس اعلان کے خلاف ورزی میں جو بھی تفریق کی جائے یاجس تفریق کی بھی ترغیب دی جائے،اس سے بچاؤ کے سب برابر کے حقدار ہیں۔
دفعہ۔ 8
ہر شخص کو ان افعال کے خلاف جو دستوریا قانون میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کی نفی کرتے ہوئے ہوں، با اختیار قوی عدالتوں سے موئثر طریقے سے چارہ جوئی کرنے کا حق ہے۔
دفعہ۔9
کسی شخص کو من مانے طور پر گرفتار، نظر بند،یا جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ۔10
ہر شخص کو یکساں طور پر حق حاصل ہے اس کے حقوق و فرائض کے تعین یا اس کے خلاف کسی عائد کردہ جرم کے فیصلے کے بارے میں اسے ایک آزاد اورغیرجانب دار عدالت میں کھلی اورمنصفانہ سماعت کا موقع ملے۔
دفعہ۔ 11
(1)ایسے ہر شخص کو جس پر کوئی فوجداری الزام عائد کیا جائے، اس وقت تک بے گناہ شمار کیا جانے کا حق ہے جب تک اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہو جائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع اور تمام ضمانت نہ دی جا سکی ہوں۔
(2)کسی شخص کو کسی ایسے افعال یا فروگزاشت کی بنا پر جو ارتکاب کے وقت قومی یا بین الاقوامی قانون کے اندر تعزیزی جرم کا شمار نہیں کیا جاتاتھا، کسی تعزیری جرم میں ماخوذ نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی اسے کوئی ایسی سزا دی جائے گی جو جرم کے ارتکاب کے وقت مقرر کردہ سزا سے زائد ہو۔
دفعہ۔12
کسی شخص کی نجی زندگی، خانگی زندگی، گھربار خط و کتابت میں من مانے طریقے پر مداخلت نہ کی جائے اور نہ ہی اس کی عزت اور نیک نامی پر حملے کیے جائیں گے۔ہر شخص کو ایسے حملے یا مداخلت قانونی تحفظ کا حق ہے۔
دفعہ۔13
(1)ہر شخص کو اپنی ریاست کی حدود کے اندر نقل و حرکت کرنے اور کہیں بھی سکوت اختیار کرنے کی آزادی کا حق ہے۔
(2) ہر شخص کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی ملک سے چلا جائے چاہے یہ ملک اس کا اپنا ہو یا اسی طرح اسے اپنے ملک میں واپس آجانے کا بھی حق ہے۔
دفعہ۔14
(1)ہر شخص کو عقیدے کی بنا پر آیذارسانی سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔
(2)یہ حق ان عدالتوں کارروائیوں سے بچنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا جو خالصتا غیر سیاسی جرائم یا ایسے افعال کی وجہ سے عمل میں آتی ہیں جو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف ہیں۔
دفعہ۔15
(1)ہر شخص کو قومیت کا حق ہے۔
(2)کوئی شخص محض من مانے طور پر قومیت سے محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کو کرنے کا حق دینے سے انکار کیا جائے گا۔
دفعہ۔16
(1)بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر ایسی پابندی کے جو نسل قومیت اور مذہب کی بنا پر لگائی جائے شادی بیاہ کرنے اور گھر بسانے کا حق ہے۔مردوں اور عورتوں کو نکاح اور ازواجی زندگی اور نکاح کو فسخ کرنے کے معاملے میں برابر کیحقوق حاصل ہیں ہیں۔
(2) نکاح فریقین کی پوری آزادی اور رضامندی سے ہوگا۔
(3) خاندان،
معاشرے کی فطری اور بنیادی اکائی ہے اور وہ معاشرے اور ریاست دونوں کی طرف سے حفاظت کا حقدار ہے۔
دفعہ۔17
(1)ہر انسان کو تنہا یا دوسروں سے مل کر جائیداد اوررکھنے کا حق ہے۔
(2)کسی شخص کو زبردستی اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ۔18
ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا پورا حق حاصل ہے۔ اس حق میں مذہب اور عقیدے کو تبدیل کرنے اور اجتماعی یا انفرادی طور پر خاموشی یاکھلے بندوں یا اپنے عقیدے کی تبلیغ،اس پر عمل، اس کی عبادات اور اس کی رسومات پوری کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔
دفعہ۔19
ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اور اظہارِ رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اور بلا کسی قسم کی مداخلت کے اپنی رائے پر قائم رہے اور جس ذریعے سے چاہیے اور ملک کی سرحدوں کے حائل ہوئے بغیر معلومات اور خیالات کا حصول اور اس کی ترسیل کرے۔
دفعہ 20
(1)ہر شخص کو پرامن طریقے سے ملنے جلنے اور انجمن قائم کرنے کی آزادی کا حق ہے۔
(2)کسی شخص کو کسی انجمن میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
دفعہ۔22
معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر شخص کو معاشرتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔اور یہ حق بھی وہ ملک کے نظام اور وسائل کے مطابق قومی کوشش اور بین الاقوامی تعاون سے اقتصادی معاشرتی اور ثقافتی حقوق کو عملاًحاصل کرے،جو اس کی عزت اور شخصیت کے آزادانہ نشونما کے لیے لازم ہیں۔
دفعہ۔ 23
(1)ہر شخص کو کام کاج، روزگار کے آزادانہ انتخاب، کام کاج کی مناسب ومعقول شرائط اور بے روزگاری کے خلاف کا تحفظ کا حق ہے۔
(2)ہر شخص کو کسی تفریح کے بغیر مساوی کام کے لئے مساوی معاوضہ کا حق ہے۔
(3)ہر شخص جو کام کرتا ہے وہ ایسے مناسب و معقول مشاہرے کا حق رکھتا ہے۔جو خود اس کے اور اس کے اہل و عیال کے لئے عزت کی زندگی کا ضامن ہواور جس میں اگر ضروری ہو تو معاشرتی تحفظ کے دوسرے ذرائع سے اضافہ کیا جاسکے۔
(4)ہر شخص کو اپنے مفاد کے بچاؤ کے لیے تجارتی انجمنیں،(ٹریڈیونین) قائم کرنے اور اس میں شریک ہونے کا حق حاصل ہے۔
دفعہ۔24
ہر شخص کو آرام اور فرصت کا حق ہے جس میں کام کے گھنٹوں کی حدبندی اور تنخواہ کے ساتھ مقررہ وقفوں پر تعطیلات میں شامل ہے۔
دفعہ۔ 25
(1)ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کے صحت اور فلاح و بہبود کے لئے مناسب معیار زندگی کا حق ہے جس میں خوراک،پوشاک، مکان اورعلاج کی سہولتیں اور دوسری ضروری اور معاشرتی مراعات، اور بے روزگاری،بیماری، معذوری،بیوگی، بڑھاپا اور اس ان حالات میں روزگار سے محرومی جو اس کے قبضہ ء قدرت سے باہر ہوں،کے خلاف تحفظ کا حق شامل ہے۔۔
(2) زچہ اور بچہ خاص توجہ اور امداد کے حقدار ہیں۔تمام بچے خواہ وہ شادی کے بغیر پیدا ہوئے ہوں یا شادی کے بعد معاشرتی تحفظ سے یکساں طور پر مستفید ہوں گے۔
دفعہ۔26
(1)ہر شخص کو تعلیم کا حق ہے۔تعلیم کم سے کم ابتدائی اور بنیادی درجہ مفت ہوگی۔ ابتدائی تعلیم لازمی ہوگی۔ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا جائے گا اور لیاقت کی بنا پر اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مساوی طور پر ممکن ہوگا۔
(2) تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی پوری نشونما ہوگا اور وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہوگی۔ وہ تمام قوموں اور نسلی مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت، رواداری اور دوستی کو ترقی دے گی اور امن کو برقرار رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی۔
(3) والدین کو اس بات کے تصفیہ کا اولین حق ہے کہ ان کے بچوں کو کسی قسم کی تعلیم دی جائے۔
دفعہ۔27
(1)ہر شخص کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے،فنون و لطیفہ سے مستفید ہونے اور سائنس کی ترقی اور اس کے فوائد میں شرکت کا حق حاصل ہے۔
(2) ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ اس کے ان اخلاقی اور مادی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ جو اسے ایسی سائنسی،فنی یاادبی تصنیف سے، جس کا وہ مصنف ہے حاصل ہوتے ہیں۔
دفعہ۔28
ہر شخص ایسے معاشرتی اور بین الاقوامی نظام کا حقدار ہے جس میں وہ تمام آزادیاں اور حقوق حاصل ہو سکیں جو اس اعلان میں شامل ہیں۔
دفعہ۔ 29
(1)ہر شخص پر معاشرے کے حق ہیں کیونکہ معاشرے میں رہ کر اس کی شخصیت کی آزادانہ اور پوری نشونما ممکن ہے۔
(2)اپنی آزادیوں اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہوگا جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کرانے اور ان کا احترام کرنے کی غرض سے اور ایک جمہوری نظام میں اخلاق، امن عامہ،اور عام فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لئے قانون کی طرف سے عائد کی گئی ہوں۔
(3) یہ حقوق اورآزادیاں کسی حالت میں بھی اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلافعمل میں نہیں لائی جا سکتیں
دفعہ۔30
اس اعلان کی کسی چیز سے کوئی ایسی بات مراد نہیں لی جا سکتی کہ جس سے کسی ملک،گروہ یاشخص کو کسی ایسی سرگرمی مین مصروف ہونے یا کسی ایسے کام کو انجام دینے کا حق پیدا ہو جس کا منشا اس حقوق اور آزادیوں کی نفی ہو جویہاں پیش کی گئی ہیں۔