عقل و دانش کا تقاضہ کہ ایک دوسرے کے افکار کو سمجھیں
نقاش نائطی
بچپن میں آرٹس کا امتحان دیتے، وقت پھولوں کی بالڈی کا پوزیشن ہمارے سامنے کچھ ایسا تھا کہ تصویر بالعکس اتارنا مشکل لگتا تھا،ہم نے منتحب وقت سے پوچھا اس صورتحال میں اپنے تصور کے حساب سے تصویر بنائیں کیا؟ اس وقت استاد محترم کا دیا جواب آج تک ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ “آپ کو جو دکھتا ہے اس کا عکس آپ قرطاس پر اتار دیں۔ استاد کا معلوم ہے کہ کونسی پوزیشن آسان اور کونسی پوزیشن مشکل تر ہے اس حساب سے آپ کو مارکس دئیے جائینگے”
یہی تو دنیا کا اوصول ہے۔ ہمیں جو نظر آتا ہے یا ہماری عقل و فہم و ادراک جو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ نہ صرف ہمیں دکھتا ہے یا ہمیں سمجھ آتا ہے اور جو رائے ہم قائم کرتے ہیں وہی ہمیں سچ لگتا ہے۔ اور اگر ہم کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے میں غلطی بھی کریں تواللہ غفورالرحیم ہے وہ ہمیں معاف کر دیگا۔ اس لئے ہم اپنی کم عقل والی آراء کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے، اپنی آراء کا اظہار کرکے بات ختم کردیا کریں،
کوئی مانے نہ مانے یہ انکا اپنا کام اور انکی اپنےعقل و فہم کا سوال ہے۔ کسی بھی نقطہ نظر پرتمام قارئین کو اپنا ہمنوا کرنا، یہ تو نہ صرف مشکل امر ہے بلکہ تقریبا قارئین کی اکثریت ہمارے تفکر کے خلاف بھی رائے قائم کرلیں تو ہمارا کونسا نقصان ہونے والا ہے؟ ہمیں بس اللہ کا اس لحاظ سے شکر ادا کرنا ہے کہ ہمیں اپنی آرا پیش کرنے کا موقع تو مل رہا ہے
ہم اس بات کےمتقاضی نہیں کہ محمد بن سلمان و آل سعود کو انکے کسی عمل کے لئے انہیں اسلام دشمن قرار دیں یا والی خلافت عثمانیہ کو مسلمانوں کا غدار یا اسرائیل کا ایجنٹ قرار دیں۔ آج کا عاقل بالغ تعلیم یافتہ مسلمان، دنیوی حالات کو دیکھتے ہوئے، اس بات کو سمجھنے کا ادراک بخوبی رکھتا ہے کہ کون مخلص ہے؟ اور کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے؟ کسی کے بھی بارے میں ہماری آراء قائم کرنے سے نہ وہ مسلم امہ کا رہبر قائم و باقی رہ سکتا ہے
، اور نہ کل مستقبل میں، سو سالہ عقد یہود و مشرکین (عقدلوازین) کے اختتام پر، مملکت ترکیہ کو، خلافت راشدہ کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کا اعلان کر، پورے عالم عرب کو اپنی خلافت کا حصہ بناتے ہوئے، ایک مظبوط خلافت عثمانیہ کے قیام سے ہم ترک و پاکستان کو روک پائیں گے؟مقدر میں جو لکھا ہے وہ ہوکر رہیگا۔ جہاں تک، کل کی نومولود غاصب حکومت اسرائیل کے، ممکنہ خلافت عثمانیہ کے قیام سے خائف، اپنے گریٹر اسرائیل منصوبہ کے لئے،
اس وقت کے غداران خلافت عثمانیہ عرب ممالک کو ڈرا دھمکاکر یا ورغلا خائف کر،انہیں ممکنہ خلافت عثمانیہ کے خلاف، یہود و نصاری عرب اتحاد کی طرف مائل گر وہ کر سکتے ہیں تو کیا، ترک حکمرانوں کو اپنے دوست پاک افواج کے ساتھ مل کر یہود و نصاری کی سازشی افکار کو لگام لگانے، وہ خلافت عثمانیہ کے قیام اور عرب و ترک ریاست پر مشتمل ایک مضبوط اور گریٹر اسلامی ریاست کے بارے میں کیا وہ سوچ نہیں سکتے ہیں؟
موجودہ آذر بائیجان آرمانیہ حرب میں، شیعہ آبادی آذر بائیجان کے خلاف شیعہ اکثریتی مملکت ایران کا روس کے ساتھ مل کر، مسیحی ملک آرمانیہ کی تائید و حربی حمایت میں کھڑا پایا جانا اور مستقبل کے ممکنہ خلافت عثمانیہ کے ڈر سے، مسلم اکثریتی ملک ترکیہ کے خلاف عرب حکمرانوں کا یہود و نصاری کے ساتھ مل کر مسلم ملک آذر بائیجان کےخلاف صف بستہ ہونا، یہ ثابت کرنے کے لئے کیا کافی نہیں ہے؟ کہ ان مختلف ملکوں کی دوستی دشمنی، اسلام و مسلمانوں کے مفاد سے کہیں زیادہ، انکے اپنے افکار و جغرافیائی حالات کے تقاضوں پر مبنی ہوا کرتی ہے۔
آذر بائیجان آرمینیا جنگ میں، آرمینیا کا حربی حلیف کل کی عالمی طاقت روس کا، آرمینئا کے ساتھ اپنے حربی عقد باوجود، اس جنگ میں اپنے دائمی حربی حلیف امریکہ کے دشمن ترکیہ کے خلاف صف بستہ ہونے کے بجائے، دشمن کے دشمن سے ممکنہ مستقبل میں دوستی کی امید پر، اور اس حرب آرمینئا میں اس سے ذاتی زک پہنچنے کے باوجود، مستقبل میں عالم کی اکلوتی طاقت صاحب امریکہ کے خلاف مستقبل کے محاذ جنگ صف آرائی میں، ترکیہ کا ساتھ پانے کی امید پر، روس کی وقتی معاملہ فہمی قابل دید تھی۔ اسی اقسام کی معاملہ فہمی کی مختلف مسلم حکومتوں کو نہ صرف ضرورت ہے۔
بلکہ ہوسکتا ہے پاکستان سعودی عرب ترکیہ قطر سمیت مختلف مسلم ممالک، اسی اوصول پر وقتی طور ایک دوسرے کے خلاف صف بستہ پائے جاتے ہوں اور ان کی دور رس حربی پالیسی سازی کے ادراک و رموز سے نابلد ہم قلم کار، انہیں غلط سمجھ ان کے خلاف اپنے لفاظی والی تیشہ زنی ہی میں مصروف پائے جاتے ہوں۔کچھ مہینوں کی عوام درشاتی معشیتی اختلافی دشمنی بعد والی سعودی عرب شاہ سلمان مدظلہ کا خود سے پہل کر،اپنے حریف دکھائے گئے،
ترک صدر رجب طیب اردگان سے اختلافات دور کرنے کی سعی کرنا اور سابقہ ایک دو سال سے جگ دکھائے ازلی دشمن قطر سے اندرون خانہ مفاہمت کی سعی کرتے سال نو کی ابتداء میں، مدائن صالح العیلیا عرب ممالک نششت میں والی سعودی عرب کا، والی قطر کو خوش آمدید کہنا، کیا ان حکمرانوں کی خوش آئیند حکمت عملی ظاہر کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟ عالمی حربی تناظر میں مختلف ملکوں کے بنتے بگڑتے رشتوں کو مختلف زاویاتی افکار تناظر میں دیکھنے، پرکھنے اور صحیح ادراک و آراء قائم کرنے کا فن ہی اصل ضروری ہے ہماری کج فہمی کو ان والیاں و شاہان ممالک کے غلط و صحیح فیصلے ہر منتج کرنا کہاں تک صحیح عمل ہے اس کا خود محاسبہ وقت کا تقاضہ ہے
ہمیں اس بات کا ادراک ہونا ضروری ہےکہ عالمی سطح پر مملکتوں کے درمیان بنتے بگڑتےرشتے دور رس نتائج کے حامل ہواکرتے ہیں۔ اور وہ یونہی دنوں ہفتوں مہینوں پر محیط نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سربراہان مملکت ان اہم فیصلوں کے لینے میں کج رو معاملہ فہم نہیں ہوتے اللہ نے انہیں ان مقام متمئز پر متکمن کیا ہوا ہی ہے تو وہ یقینا انکی مناسب رہنمائی بھی یقینا کرتا ہوگا۔
ایسے میں مختلف واٹس آپ گروپ پر اپنے جدا جدا افکار سے گرجتے اور برستے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سعی پیہم میں مصروف برادران اسلام، آل سعود و آل خلافت عثمانیہ کی طرف داری و مخالفت میں، ہمارا بھڑنا یا آپس میں اپنی پوسٹ کی بنیاد پر اختلاف قائم کرنا، کہاں کی عقلمندی ہے؟ ترک صدر یا آل سعود کی طرف داری سے، ہمیں کچھ مالی منفعت ملنے والی نہیں ہے تو پھر کیوں بیکار کی بحث و تمحیص سے، ہم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف،اپنے موقف پر بضد رہیں
تمام اخوان فی الاسلام سے ہماری التجا و درخواست ہے کہ آپ کسی بھی نوع کی اپنی آراء بیشک پیش کریں لیکن اپنے موقف کو قائل کروانے کی سعی ناتمام سے پرہیز کریں اس لئے کہ مختلف الفکری و مختلف الذہنی بزم کی بقاء تادیر قائم رہنےکے لئے، یہ معاملہ فہمی نہایت ضروری ہوا کرتی ہے۔ ہمیں بھی اس بات کا ادراک رہتا ہے کہ ایک قلم کار کی حیثیت سے ہمارے بعض افکار پر اختلاف باوجود، مختلف سائبر میڈیا گروپ کے بعض معزز صاحب علم قاری حضرات، عنوما” سکوت سے کام لیتے پائے جاتے ہیں۔ اور ہم بھی طفل مکتب کے کسی استاد کی طرح ہاتھ میں چھڑی لئے ، آداب و اخلاقیات کا آراکین بزم کو پاٹھ پڑھاتے، اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے والوں میں سے ہم،اپنے آپ کو کبھی پانا نہیں چاہتے ہیں، اس لئے مختلف بزم کے، تمام آراکین کو آپس میں ہم برابر سمجھتے ہوئے،ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے، جتنا ممکن ہے معاملہ فہمی سے مل جل کر ایک دوسرے سے لاسلکی افہام و تفہیم کرتے پائے جائیں، یہی ہم مسلم امہ کی وحدت کے لئے مناسب و ضروری ہے۔وما علینا الا البلاغ