مسائل کا شکار اوور سیز پاکستانی
تحریر: اکرم عامر سرگودھا
اوور سیز پاکستانی ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی ایشیائی اور یورپی ممالک میں کام کر رہے ہیں، ان میں اکثریت غریب اور سفید پوش طبقہ کی ہے، جو اپنے ماں باپ بہن بھائیوں، عزیز و اقارب، بیوی بچوں کو چھوڑ کر دیار غیر میں محنت و مشقت کر کے کثیر زر مبادلہ اپنے ملک میں بھجوا رہے ہیں، بیرون ممالک میں 5 فیصد درمیانہ طبقہ ہے جو اپنے کاروبار کی وجہ سے اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوا پائیں، کیونکہ امراء اور درمیانے طبقہ کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کی اعلی تعلیم کے ساتھ ہر آسائش پوری کرنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ ایسا کرتے بھی ہیں، ان کے بچے بڑے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پڑھ کر اکثریت چمک کے ذریعے اعلی عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں، اور بیوروکریسی کی صورت میں ملک پر راج کرتے ہیں،
ملک میں یہی طبقہ نسل در نسل سیاست پر چھایا ہوا ہے، آنے والی حکومت میں ان طبقوں کا اہم رول ہوتا ہے اور انہی میں سے سینیٹر، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بن کر وفاقی و صوبائی وزراء حتی کہ وزارت اعلیٰ و وزارت عظمیٰ تک پہنچتے ہیں، ملکی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آج تک کسی غریب کا بچہ ان عہدوں تک نہیں پہنچا، اور اگر کسی غریب نے سیاست میں ان طبقات کا سامنا کرنے کیلئے قدم رکھا تو سرمایہ دار وڈیرے جاگیر دار جو سیاست کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں نے غریب کو انتقام کی صورت میں ایسا سبق سکھایا کہ وہ زندگی بھر سنبھل نہ سکا، اور وہ اپنی آنے والی نسلوں کو سیاست میں قدم نہ رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے جہان فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں، اس طرح ہمارے ملک میں سیاست صرف چند خاندانوں کی میراث ہو کر رہ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا نظام نہیں بدلا جا سکا، اس طرح ہر دور میں صرف اقتدار پر چہرے بدلتے ہیں،
نظام نہیں، لیکن ان کا تعلق انہی خاندانوں و گھرانوں سے ہوتا ہے جو ایک عرصہ سے ملکی سیاست پر مسلط ہیں، اسی طرح تین فیصد امراء نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر کے ملک کی جڑوں کو ناصرف کھوکھلا کر دیا ہے بلکہ امراء کے اس عمل سے اقتدار میں آنے والا ہر حکمران بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے قرضہ حاصل کر کے ملک چلانے پر مجبور ہیں۔ اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان سے سرمایہ کما کر بیرون ملک اثاثے بنانے اور کاروبار چلانے والے سرمایہ داروں کی وجہ سے پاکستان دوسرے خود کفیل ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھا ہوا ہے۔
اور اسی بناء پر ملک کا ہر بچہ، بوڑھا جوان سب ہی تو مقروض ہیں، جبکہ 5 فیصد درمیانہ سرمایہ دار بیرونی ممالک میں رہ کر اپنا کاروبار کر کے اپنی آمدن کا کچھ حصہ پاکستان منتقل کر کے یہاں اپنے اثاثے بنانے کے ساتھ اپنے کنبے کے افراد کو مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے، امراء اپنے ملک میں ہوں یا بیرونی ممالک میں، وہ اپنے بچوں کی اکثریت کو اندرونی و بیرونی ممالک کے کالجوں و یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم دلواتے ہیں۔
سو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی بات ہو رہی تھی ان اوورسیز پاکستانیوں کی جو اپنے پیاروں سے دور سمندر پار جا کر محنت مزدوری کر کے اس کی مد میں کمائی گئی کل رقم زر مبادلہ کی صورت میں اپنے ملک میں بھجواتے ہیں، یہ 92 فیصد محب وطن لوگ ہیں، جنہیں وطن کی مٹی سے پیار ہے اور وہ امراء کے بر عکس دوسرے ممالک سے کما اپنا سرمایہ ملک میں بھجوا کر معیشت کو مستحکم کر کے اسے دیوالیہ ہونے سے بچائے ہوئے ہیں،
ان اوورسیز پاکستانیوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے بھی پاکستان میں ہی تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹرز، انجینئرز، بیورو کریٹس اور دیگر عہدوں تک پہنچیں، کیونکہ یہ تو پہلے ہی محنت مزدوری کیلئے دیار غیرگئے ہوتے ہیں اور یہ اپنے بچوں کو امراء کی طرح ملکی یا غیر ملکی یونیورسٹیوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں پرائیویٹ سطح پر اعلی تعلیم نہیں دلوا سکتے، اس طرح اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کی اکثریت اعلی تعلیم جیسی نعمت سے محروم رہ جاتی ہے۔
دوسری طرف ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں پاکستان میڈیکل کونسل (پی ایم سی) نے اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو میڈیکل سائنس کی تعلیم سے محروم کر کے رکھ دیا ہے اور اب اوورسیز کوٹہ پر وہی بچے داخلہ کے اہل ہونگے جو ایف ایس سی /اے لیول بیرون ممالک سے کریں گے، جبکہ قبل ازیں ہر پاکستانی مزدور جو اوورسیز کارڈ ہولڈر اور اپنے بچوں کو بیرون ملک اپنے پاس رکھنے کی سکت نہ رکھتا تھا وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا تھا، وہ سہولت بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر تھی، کیونکہ حکومت نے پنجاب بھر کے میڈیکل کالجز میں لاکھوں سمندر پار پاکستانی محنت کشوں کے بچوں کیلئے صرف 72 سیٹیں مختص کر رکھی تھیں،
جن پر اوورسیز کارڈ رکھنے والوں کے بچے میرٹ پر ایپلائی کر سکتے تھے، جبکہ اب پاکستان میڈیکل کونسل نے یہ سہولت دیار غیر میں بسنے والوں کے بچوں سے چھین لی ہے جس کی وجہ سے 92 فیصد سمندر پار پاکستانی محنت کشوں جو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر رکھتے ہیں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔کپتان جی آپ نے تو اقتدار سے پہلے اور وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت کو سہارا دینے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہے ہیں ان کے مسائل ترجیح بنیادوں پر حل کرائے جائیں گے، آپ نے ان سے سرمایہ وطن بھجوانے کا کہا تو دیار غیر سے صرف انہی محنت کشوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا کینسر ہسپتال ہو یا ملک میں ڈیم بنانے کیلئے فنڈز کی ضرورت،
زلزلہ زدگان ہوں یا سیلاب متاثرین ہر کڑے وقت میں یہی طبقہ تو ہے جو خود محنت کش ہونے کے باوجود اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے بڑھ چڑھ کر عطیات دیتے ہیں، اکثر سرمایہ داروں نے تو آپ کے دور میں احتساب کے ڈر سے اپنا بچا کھچا سرمایہ بھی دوسرے ممالک میں منتقل کر کے ملک کو دوراہے پر کھڑا کیا ہے تو کپتان جی ان حالات میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کو اعلی تعلیم بالخصوص میڈیکل کی تعلیم کی سہولت دینا ان پر احسان نہیں
یہ ان کا حق ہے تو آپ اوورسیز پاکستانیوں سے اپنا وعدہ وفا کریں اور ان کے بچوں سے میڈیکل کونسل کی طرف سے چھینی گئی سہولت نا صرف انہیں واپس کرائیں بلکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی کے، گلگت بلتستان، بشمول آزاد کشمیر کے میڈیکل کالجوں میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کیلئے نشستوں میں اضافہ کریں۔
کپتان جی آپ کو یہ بھی چاہئے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کیلئے انجینئرنگ یونیورسٹیز، زرعی کالجز، زرعی یونیورسٹیز، ٹیکنیکل کالجز و یونیورسٹیز سمیت اس طرح کے اعلی تعلیمی اداروں میں کوٹہ مختص کریں تا کہ اوورسیز پاکستانیوں میں پائی جانے والی تشویش کی لہر ختم ہو سکے، ان کے بچے بھی مستقبل میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر اداروں سے پڑھ کر ڈگریاں لے کر اپنے والدین کے خوابوں کی تعبیر پوری کر سکیں۔
کپتان جی تب بنے گا نیا پاکستان اور پھر دیار غیر میں بسنے والے لاکھوں پاکستانی سینہ تان کر دوسرے ممالک کی عوام کو مثال دے کر کہہ سکیں گے کہ ان کے ملک میں بھی آپ (جہاں وہ مزدوری کر رہے ہیں) کی طرح ان کے بچوں کو اعلی تعلیم کی سہولت حاصل ہے، اس سے ملک کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا اور دوسرے ممالک میں ہمارے ملک بارے تعلیم کے فقدان کا جو تاثر پایا جاتا ہے وہ ختم ہو گا۔