امن کی خو اہش کمزور ی نہیں !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پاکستان نے پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ہر سطح اور ہر سمت میں امن کا ہاتھ بڑھایا ہے ،جبکہ اس کے برعکس مقبوضہ جموں و کشمیر پر قبضے کی وجہ سے خطے میں ایٹمی جنگ کے لئے ایک فلیش پوائنٹ میں تبدیل کرنے والے بھارت کی سرحدی پالیسی پورے ایشیا کے لئے نہایت خطرناک ہے۔بھارت ایک طرف پاکستان اور چین جیسے طاقتور ممالک کی دشمنی کا بہانہ بناکر جدید اسلحے کے ڈھیر لگا رہا ہے تو دوسری جانب لالچ اور دھونس پر مبنی پالیسی کے ذریعے افغانستان، نیپال اور بنگلہ دیش جیسے کمزور ممالک کو بھی نہیں بخش رہا ہے
۔بھارت کے اس امن دشمن رویے کی وجہ سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگ میں اضافہ ہورہا ہے ،بلکہ اس سے خطّے کے امن و ترقی کا سفر بھی منجمد ہوچکا ہے، اگر یہ صورتحال یونہی جاری رہی تو اس خطے پر جنگوں کے بادل ہمیشہ منڈلاتے رہیں گے اور یہاں خوشحالی،امن اور ترقی کے خواب کبھی پورے نہیں ہوں گے۔
اس میں شک نہیں کہ پا کستان کی جانب سے خطے میں قیام امن کی کائوشوں کا بھارت نے غلط مطلب نکالا ہے،اس تنا طر میں افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیاہے کہ ہم کسی کو امن کی خواہش کا غلط مطلب نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے، افواج پاکستان کسی بھی قسم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں، پاکستان پر امن ملک ہے جس نے عالمی امن کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم پر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہیں،
پاکستان اور بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق پرامن انداز میں حل کرنا چاہیے، تاکہ کشمیر میں انسانی المیے کا خاتمہ ہو سکے۔یہ بات واضح ہے کہ کشمیر کا مسئلہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے موقعے پر برطانیہ کی بدعہدی کی وجہ سے پیش آیا ہے،تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت متصل مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل پاکستان کی ریاست قائم ہونی تھی۔ کشمیر پاکستان سے متصل مسلم اکثریتی ریاست تھی ،لیکن برطانیہ کے قائم کردہ بائونڈری کمیشن نے مشرقی پنجاب میں واقع گورداس پور اور پٹھانکوٹ کے اکثریتی اضلاع کو بھارت میں شامل کر دیا، یہ برطانوی حکومت کی طے شدہ بدنیتی تھی، تاکہ بھارت کو سری نگر کا زمینی راستہ فراہم کر دیا جائے، اس طرح برطانیہ ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوتے خطے میں فساد کا بیچ بو گیا ہے۔ اس وقت سے آج تک بھارت کی ہر حکومت کشمیر کو ناجائز طور پر بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ قرار دیتی رہی ہے۔
بھارت نے کشمیر پر فوجی طاقت سے قبضہ کیا اور آج تک قابض ہے،جبکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی رائے سے ہوگا، اس کا وعدہ بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ میں کیا ہوا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے اپنا کردار ادا کیا نہ بھارت کی حکومت نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی فوج کے پہلے انگریز سربراہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھارتی فوج کی مداخلت کو روکنے کے لیے جوابی کارروائی کرے، لیکن انگریز فوجی سربراہ نے قائداعظم کے حکم کی تعمیل نہیں کی،
جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کا سبب بنا ہوا ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک دونوں ملکوں کے درمیان بلامبالغہ مذاکرات کے سیکڑوں دور ہو چکے ہیں، لیکن ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلاہے۔پاکستان کی تمام حکومتوں نے ہمیشہ بھارت سے مذاکرات کرنے کو ترجیح دی ہے، لیکن ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے سے بھارت مذاکرات سے بھاگتا رہا ہے۔ اس کا ایک ہی دعویٰ ہے کہ کشمیر بھارت کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے، دنیا کی سب سے ’بڑی جمہوریہ‘ ہونے کی دعویدار کشمیر کے باشندوں کو جمہوری حق دینے کو تیار نہیں ہے
کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں، حالانکہ بھارت کی پہلی حکومت نہرو کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے ایوان میں وعدہ کر چکی ہے کہ کشمیری عوام حق خودارادیت استعمال کرتے ہوئے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں گے،مگر ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیری عوام کوحق خودارادیت نہیں دیا جارہا ہے،تاہمکشمیر تسلسل سے آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں، کشمیری جیلیں آزادی کے مجاہدین سے بھری ہوئی ہیں، بھارتی فوج کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے کشمیر کے مسلمانوں کی صورت حال ’انسانی المیہ‘ بن گئی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ عالمی سیاست کے فیصلے اصول اور ضمیر کے مطابق نہیں ہوتے، اس لیے کہ عالمی نظام سامراجیت اور استعماریت کا ورثہ ہے، تمام عالمی ادارے ایشیا و افریقہ کے غریب اور کمزور ممالک کو غلام رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں، اگر عالمی سیاست کے فیصلے اصول کے مطابق ہوتے تو فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا اب تک حل نکل آنا چاہئے تھا،کشمیر کے مسلمان جن حالات کا شکار ہیں، اس کی ایک وجہ پاکستان حکمرانوں کی مجبوریاں اور کسی حدتک دبائو بھی ہیں، حکومت کی کمزور سفارت کاری کی وجہ سے کشمیر سے دست برداری کے الزامات بھی عاید کیے جا رہے ہیں، حکومت کو زبانی کلامی مسئلہ کشمیر اُجاگر کرنے کے دعوئوں کی بجائے عملی طور پر متحرک ہو نا ہو گا ، بھارت تکبر میں مبتلا ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتا ،یہ ذمے داری پاکستان پر عاید ہوتی ہے کہ بھارت کے غرور کو خاک میں ملا دے۔
بلا شبہ پا کستان آرمی چیف کا بھارت کو متنبہ کرنا کہ امن کی مذکورہ خواہش کو کمزوری کی علامت کے طور پر نہ لیا جائے قابل توجہ ہے ،تاہم عالمی قوتوں کو بھی بھارتی جارحیت کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے، اس منظرنامے میں
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا دیا گیا بیان خاص اہمیت کا حامل ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سنجیدہ مذاکرات کے لئے اپنی ثالثی خدمات پیش کرتے ہیں۔ عالمی ادارے کے سربراہ کی تشویش واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بھی فوجی تصادم دونوں ممالک ہی نہیں، پوری دنیا کے لئے بڑی تباہی کا باعث ہوگا۔اس وقت زمینی حقائق یہی ہیں کہ جبر کی چکی میں پسنے والے کشمیری عوام کا صبر و ضبط جواب دیتا جارہا ہے، اس باب میں اقوامِ متحدہ کا فوری طور پر متحرک ہونا ضروری ہے، کیونکہ سات دہائیوں سے سرد خانے کی نذر کئے گئے سلامتی کونسل کے فیصلوں کو لامحدود مدت تک مزید ٹالنا ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرات بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔