34

عالم پر کیا اسلامی حکمرانی کے آثار لگ ریے ہیں؟

عالم پر کیا اسلامی حکمرانی کے آثار لگ ریے ہیں؟

نقاش نائطی
۔ +966562677707

2023سو سالہ عقد لؤزین خاتمہ کے بعد،کیا خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ قائم کرنے ترک صدر رجب طیب اردگان کامیاب بھی ہونگے؟ عالمی یہود و ہنود و نصاری اسلام دشمن طاقتیں، کیا عالم پر، سو سالہ مسیحی حکومتی ورلڈ آرڈ کو، اتنی آسانی سے تبدیل ہونے دینگی؟

ایک طرف 1923 اس وقت کی دشمن اسلام عالمی قوت برطانوی سامراج اور اس وقت کے اس کے مقابلے کے امریکہ فرانس و جرمن مسیحی قوتیں ہوں کہ روس و جاپان اور چائینا کی لادینی قوتیں، اس وقت کی اسلام دشمن قوت مشترکہ افواج نے، آپس میں سانٹھ گانٹھ کرتے ہوئے، اس وقت کی تقرہبا” دو تہائی عالم پر کامیاب حکومت کررہی خلافت عثمانیہ کے خلاف،انکے اپنوں کو،انکے خلاف،اپنا حلیف بناتے ہوئے

،اسے شکست فاش دے،مستقبل میں کبھی خلافت عثمانیہ سر نہ اٹھاسکے، اسکا مکمل بندوبست کرنے ہی کے لئے، سو سالہ عقد لوزین سے،خلافت عثمانیہ کے اس وقت کے حکمرانوں کو، ہتک آمیز شروط عقد لوزین، پابہ سلاسل کرواتے ہوئے، بعد عقد، ان والیان خلافت عثمانیہ کو، یورپ کے مختلف علاقوں میں بکھیر،

انہیں جلاد وطن کرتے ہوئے، اور انکی جگہ امریکی جمہوریت کے بہانے، کمال اتاترک جیسی کٹھ پتلی جمہوری حکومت، ترکیہ پر لادتے ہوئے، چھ سات سو سال تک، عالم پر اسلامی حکومت کرنے والے ترکی عوام کو،اسلام سے بیگانہ کرنے ہی کی بدنیتی کے ساتھ، خلافت عثمانیہ کے اسکامی قانون کو بیک جنبش قلم، اتاترک کے نئے ترکی قوانین نافذ کرتے ہوئے، ترکیہ میں عربی زبان کو ممنوع قرار دیتے،

قرآن و آذان تک کو ترکی زبان میں دئیے جانے کے قانون زبردستی نافذ کئے گئے تھے۔ دیڑھ ہزار سال قبل کےعیسائی بازنطینی دورکےمسیحی ارتھوڈکس چرچ کو،سنہ 1453 میں قسطنطنیہ شہر پر عثمانیوں کے قبضہ کے بعد خلافت عثمانیہ حکومت دوران،اس چرچ کی ملکیت کو مسیحیوں سے باقاعدہ خرید کر، اسے آیا صوفیہ مسجد میں جو تبدیل کیا گیا تھا، ان ایام خلافت عثمانیہ کی شان سمجھے جانے والے اسی آیا صوفیہ مسجد کو، پورے 470 سال بعد، کمال اتاترک کے ہاتھوں آیا صوفیہ میوزیم تک میں تبدیل کیا گیا تھا۔

یہود و نصاری اسلام دشمنان کی اتنی بڑی سازش باوجود, خلافت عثمانیہ دور کے آخری قاضی یا جج کے صاحبزادے، پیشہ سے انجینیر پروفیسر نجم الدین اربکان نے 1969 سے ترکی کی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے، جولائی 1977 سے جنوری 1978 تک چھ ماہ کے لئے ترکی کے نائب وزیر اعظم رہتے، اور جولائی 1996 سے جون 1997 تک ترکی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے، ترکیہ میں جمہوری حکومت کے خلاف اسلامی حکومتی تفکر کی جو داغ بیل ڈالی تھی، انہی کے منتخب کئے اور انکی نگرانی میں تربیت پائے 1954 کے پیدا ہوئے،

رجب طیب اردگان، 1994 سے 1998 تک استنبول شہر کے میئر رہتے، اپنی صلاحیت کا لوہا منواتے ہوئے، 2003 سے 2014 تک ترکی کے 25 وین پرائم منسٹر رہتے، عالم میں اپنی ایک الگ پہچان بناتے ہوئے، اور عالمی قرضوں میں ڈوبی معشیت ترکیہ کو، عالم کا ایک معشیتی مضبوظ ملک بناتے ہوئے، 2014 کے بعد سے ترکیہ کے صدر مملکت بنے رہتے، ایک منظم حکمت عملی کے تحت، اپنے وقت کے خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ کو،واپس لانے کے اپنی مشن پر ڈٹے ہوئے ہیں

2023 عقد لوزین خاتمہ بعد، طیب اردگان اپنے مشن خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ واپس ترکیہ میں لاتے ہوئے، عالم کے موجودہ یہود و ہنود و نصاری اسلام دشمن قوتوں کے خلاف، اسلامی خلافت حکومت، ایک مضبوط طاقت کے طور ابھر نہ سکیں، اسی لئے امریکہ و اس کے مسیحی حلیفوں نے، ترک افواج میں اپنے زر خرید غلاموں کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے، 15 جولائی 2016 ملٹری رجیم چینچ آپریش کے ذریعہ،

رجب طیب اردغان حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کی تھی جو عوامی حمایت سے ناکام بنائی گئی تھی۔2023 صدارتی انتخاب میں ایک مرتبہ پھر طیب اردغان کو شکست دیتے ہوئے، ممکنہ خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ سے ترکیہ کو باز رکھنے کی خاطر، یہود و نصاری اسلام دشمن قوتیں ترکیہ کے پڑوس مملکت شام پر قبضہ جمائے، وہاں موجود اپنی فوجی چھاؤنیوں میں، ترک مخالف کرد باغیوں کو عسکری تربیت دیئے، بارڈر کراس کروا انہیں ترکیہ بھیجتے ہوئے، اور ترکیہ میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہوئے،

ترکیہ کو کمزور کرتے، طیب ارغان کو صدارتی انتخاب میں شکشت فاش دیتے، خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ کو روکنے کے اپنے گھناؤنے مقاصد پورا کرنے ہی میں جہاں اسلام دشمن یہود و نصاری سازش کنندگان مصروف عمل ہیں، وہیں پر رجب طیب اردگان، امریکن پینٹاگان طرز،ترکیہ میں تعمیر، اپنے عالیشان صدارتی محل میں، اپنے قائم ارباب حل وعقل و دانش،اعلی تعلیم یافتہ ماہر فن سیاست و فن حرب جدید، ڈرون سازی و میزائل و طیارہ سازی ادارے قائم کر، اپنی حد درجہ قابل انٹیلیجنس سروس کے ساتھ، واقعتا 2023 خاتمہ عقد لوزین بعد،

خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ قائم کرنے کی راہ پر سنجیدگی سے جہاں گامزن ہیں، وہ کیسے اپنے اس عظیم مشن کی راہ میں روڑے اٹکائے جانے والی عالمی کوششوں کو خاموشی کے ساتھ دیکھتے رہ سکتے ہیں؟ اسی لئے انتہائی دور رس حربی حکمت عملی کے تحت، ایک طرف اپنے جنگی طیاروں سے پڑوسی ملک شام میں، موجود ترک مخالف دہشت گرد ٹھکانوں پر، گذشتہ ہفتے دو ہفتےسے مسلسل بمباری کرتے ہوئے، ہزاروں ترک مخالف دہشت گردوں کاخاتمہ کرتے ہوئے، عالمی طاقت امریکہ کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں

تو دوسری طرف، امریکہ و انکے حربی شریک، یورپ کے آلہ کار بنے، روس مخالف یوکرین کو، لاتعداد ڈرون مہیہ کرواتے ہوئے، عالمی قوت امریکہ کو چیلنج کرتی سابقہ عالمی قوت روس کوبھی حربی اعتبار، بیک وقت دو محاذی چیلنج کئے، سو سال قبل،خلافت عثمانیہ وقت کے مشترکہ دشمنوں سے، ایک ساتھ نبرد آزما ہونے کی، اپنی طاقت و صلاحیت کو عالمی حربی منظر نامہ میں منوا بھی رہے ہیں اور اس میں وہ ایک حد تک کامیاب لگتے بھی ہیں۔ یہ اس لئے سابقہ تین دہوں سے عالمی افق حرب جدید میں یکتائی حاصل کئے

، امریکی ایف 16 طیاروں کی نسل جدید، عالم کا ہر ملک حاصل کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ پاکستان ترکیہ جیسے اپنے حلیف ملکوں کو بھی، یہ جنگی جہاز دینے کے وعدے سے، ان سے اپنے ہزار کام نکلوا، ان سے طیاروں کی قیمتیں تک قبل از وصول کرتے ہوئے، اپنی معشیت مضبوط کئے جانے کے باوجود، ہزار حیلے بہانوں سے، وعدے مطابق جنگی طیارے انہیں مہیا نہ کرواتے ہوئے، انہیں بیسیوں سال سے جہان محروم و کمزور رکھا جاتا رہا ہے

وہیں پر، شام میں امریکی تربیت یافتہ ترک مخالف دہشت گردانہ ٹھکانوں پر، ترکی طیاروں کی بمباری سے خوف کھائے، براہ راست ترکیہ سے الجھنے سے احتراز کرتے،ترکیہ کی طرف گویا دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ، زمانے قبل رقم ادا کئے التوا میں رکھے ایف 16 طیاروں کی کھیپ فوری طور ترکیہ کو دینے کا امریکی اعلان،اس حربی وسفارتی جنگ میں،امریکی پسپائی کی واضح دلیل یا کوئی، نئی امریکی حکمت عملی ہے،

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ترکی صدر رجب طیب اردگان نے شام میں اپنی بمباری سے،امریکہ کا بازو مروڑتے ہوئے، زمانے قبل سے رقم ادا کئے، التوا میں رکھے گئے، امریکی ایف 16 طیاروں کی کھیپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں،لیکن کیا عالم کا اکلوتا ایٹمی مسلم ملک، پڑوسی پاکستان ،اپنے حکومتی ریسورسز لوٹنے والے لٹیروں کی آپسی رسہ کشی کا شکار بنے، بیسیوں سال سے پوری رقم ادا کئے

، ایف 16 طیاروں سے کب تک محروم ہی رکھا جائیگا یہ دیکھنا اب باقی ہے؟عالم کے مسلمانوں کو عمران خان کی نیابت والے پاکستان سے، جتنی توقعات تھیں، اس میں صاحب امریکہ کے ہاتھوں بکے پاکستانی سیاست دان و انتظامیہ کی وجہ سے، بعد رجیم چینچ،بھلے ہی عالم کے مسلمانوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہو،لیکن امریکی احکامات عمل آوری پر،اس وقت کے پرائم منسٹر عمران خان کے کہے جملے، “نہیں”،

“کبھی نہیں”،”بالکل ہی نہیں” نے امارات و سعودی عرب سمیت بہت سے جوان سال حکمرانوں کو،امریکی طوق غلامی کو، اپنے ہاتھوں نکال پھینکتے ہوئے، خود کی آزاد ملکی پالیسی وضع کرنے کی ہمت و جوانمردی عطا کی ہے۔ اس کا کھلا ثبوت سعودی حکمرانوں کی، زمانے سے چلی آرہی امریکہ نوازی چھوڑ، چائینا و روس سے قربت بڑھاتے حالیہ چین سعودی تجارتی عقود ہیں۔ اگر سعودی حکمران صاحب امریکہ سے نصف صد سال قبل کئے پیٹرو ڈالر اشتراکی عقد سے بھی ہاتھ کھینچ لیتے ہوئے

،اپنا پیٹرول اپنی کرنسی یا خلیجی مشترکہ کرنسی کا انتخاب کر کرتے ہیں تو امریکہ کی معشیت، تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے ہوئے، زمین بوس ہوتے، نوے کے دہے والے روس کی طرح،متحدہ امریکہ بھی کئی ملکوں میں بت ٹوٹ بکھر جائیگا۔ انشاءاللہ تصور کیاجائے ،ایک طرف صاحب امریکہ کا زوال ہوتے ہوئے،عالم کے بیسیوں ملکوں کو امریکی بلیک میل سے ایک طرف نجات ملیگی تو دوسری ترکیہ میں خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ شروع کئے جانے کے بعد،عالم کے انیک ملکوں کو، کچھ سو سال قبل کا امن و سکون نظر آتے، خصوصا حالیہ فیفا ورلڈ کپ قطر دوران اسلام سے آگہی ہوتے، اسلام سے ان کی نفرت ختم ہوتے پس منظر میں، خلافت عثمانیہ ترکیہ کی حربی طاقت کے سامنے مفاہمت ہی میں انہیں خیر محسوس کیا نہیں ہوگا؟

اسی لئے تو ہم اپنے متعدد لکھے مضامین کے ذریعہ سے،مسلمانان عالم کو نوید نؤ سناتے آئے ہیں کہ 1923 سکوت سلطنت عثمانیہ بعد سے عالم پر لادی گئی یہ سو سالہ مسیحی آمریکی حکومت خصوصا” سابقہ نصف صد دوران، خطہ عرب و افغانستان عراق شام لیبیا یمن میں، دس بیس لاکھ مسلم قتل و غارت گیری و مسلم نساء کی بے حرمتی والے شیطانی دور بعد، 2023 بعد آنے والا دور عالم کے مسلمانوں کے لئے خوش آئیند و تابناک سال ہوگا۔ انشاءاللہ۔ وما علینا الا البلاغ

خلافت عثمانیہ نشاط ثانیہ کی طرف رجب طیب اردغان کے بڑھتے قدم و انکے عزائم
2023 بعد مملکت جمہوریہ ترکیہ کیا مملکت اسلامیہ ترکیہ بن رہا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں