عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 51

کس اُمید کے در سے جھانکے کوئی !

کس اُمید کے در سے جھانکے کوئی !

ملک بھر میں سیاسی افر ا تفری بڑھتی جارہی ہے ،ایک طرف سیاسی افراتفری بڑھتی جارہی ہے تو دوسر جانب آئین وقانون کے ساتھ ایک کھیل کھیلا جارہا ہے ،یہ کھیل ایسے لوگ کھیل رہے ہیں ،جو کہ خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں ،یہ عوام کی نمائندگی کے دعوئیدار معا ملات سلجھانے کے بجائے مزید بگاڑ رہے ہیں

، اس صورتحال میںپیپلز پارٹی نے مسلم لیگ( ن)کو پیغام دیا ہے کہ ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کیلئے محاذ آرائی کے بجائے بات چیت سے کام لینا چاہئے،لیکن یہ تجویز مسلم لیگ (ن)اور جے یو آئی کو پسند نہیں آرہی ہے،اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان اپنی لڑائی کو جہاں ہے ،وہیں پرروک دیںاور مذاکرات سے مسائل کا قابل قبول حل تلاش کیاجائے ،ورنہ اس لڑائی میں کسی کی بھی چونچ اور دُم نہیں بچے گی۔
اگر دیکھا جائے توہماری سیاسی تاریخ کبھی اتنی خوشگوارنہیں رہی ہے، لیکن سیاست کو جس طرح اب نفرت اور دشمنی میں بدل دیا گیاہے، اس کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے، ماضی میں بدترین سیاسی مخالف مشکل حالات میں ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں، بات چیت کا دروازہ بھی کھلا رکھاجاتا رہا ہے،لیکن اب بات چیت تو در کنار سیاسی قیادت ایک دوسرے کی جانب دیکھنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے

، پی ڈی ایم جماعتیں ماضی میں پی ٹی آئی قیادت کے رویہ پر تنقید کرتی ر ہی ہیں کہ سیاست میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا ہے ،لیکن اپنی حکومت کے دوران وہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں،اس کی وجہ سے سیاسی تقسیم اور سیاسی عدم استحکام مزید بڑھتا جارہا ہے اور اس کے نتیجہ میں ملکی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے، عوام کو ایسی مہنگائی کا سامنا ہے کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال ہی نہیںملتی ہے ۔
حکمران اتحاد عوام کیلئے نہیں ،بلکہ اپنے حصول مفاد تک اقتدار میں رہنے کیلئے آئے تھے ،حکومت میں آنے کے بعد اتحاد کی پہلی ترجیح اپنے خلاف مقدمات اور ناگوار قوانین بشمول نیب، بیرون ملک ووٹنگ اور الیکٹرک ووٹنگ مشین کو ختم کرانا تھا،اس ایجنڈے پر فوری طور پر عمل کیا گیا اور بڑی حد تک کا میابی بھی حاصل کرلی ہے ،اتحادی حکومت نے اپنا ایجنڈا تو کسی حد تک مکمل کرلیا ،مگر اس ایجنڈے کی تکمیل میں اپنی سای ساکھ خراب کر بیٹھی ہے ، اتحادی جانتے ہیں کہ عوام کی عدالت میں جانے کے قابل نہیں رہے ہیں ،اس لیے اپنی ساکھ کی بحالی تک اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں ،

اس کیلئے سارے جائز و نا جائز حربے آزمائے جارہے ہیں ،ایک طرف آئین و قانون کی پامالی کی جارہی ہے تو دوسری جانب ادارتی تقسیم کے ذریعے آمنے سامنے لایا جارہا ہے ۔یہ سب مانتے ہیں کہ سیاسی تقسیم ، نفرت اور دشمنی ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، لیکن اس کے تدارک کیلئے سیاستدانوں کو جو کرنا چاہئے، وہ کرنے کیلئے تیار نہیںہے،اگرپی ٹی آئی قیادت نے اپنی ضد اور انا کی سیاست کے ہاتھوں ناکامیوں کے بعد کہنا شروع کر دیا کہ ہر ایک سے بات کرنے کو تیار ہیں تو حکمراں اتحاد میں نہ مانوںکی ضد کرنے لگے ہیں،

سیاستدانوں کے اسی رویہ کی وجہ سے ہی آج ملک بدترین سیاسی و معاشی بحران کا سامنا کررہاہے،اس سیاسی فرقہ بندی کے اثرات اب دیگر اداروں میں بھی نظر آنے لگے ہیں ،ادارے آمنے سامنے آتے دکھائی دیے رہے ہیں ،یہ ادارتی تقسیم اور ٹکڑائو ملک کیلئے باعث تشویش ہے، اس بات کاسیاسی قیادت کے ساتھ دیگر سٹیک ہو لڈر کو بھی ادارک کرنا چاہئے ،یہ سب کی ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس بڑھتی تقسیم کا خاتمہ کرنے میں اپنا کر دار ادا کرے ،مگر اس کے تدار کیلئے کہیں بھی کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،

الٹا جلتی پر مزیدتیل ڈالا جارہا ہے۔یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے ،اس دقت ملک کسی انتشار و تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ،اس لیے سارے ہی سٹیک ہو لڈرز کو مل بیٹھ کر آگے کا لائحہ عمل طے کر نا ہو گا ،یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے ،اگر ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں بچے گا ، سیاست رہے گی نہ جمہوریت بچے گی ،اس لیے ملک میں ایک ایسی سیاسی فضا بنانے کی ضرورت ہے کہ جس میں مختلف حلقے اپنے نظریاتی اختلافات کے باوجود ملکی مفاد کے لئے یکجا ہو جائیں اور آگے بڑھنے کے راستے مل جل کر تلاش کریں،

اس باب میں مختلف حلقہ احباب کی جانب سے دی جانے والی تجویز مناسب معلوم ہوتی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف افہم و تفہیم کیلئے آگے بڑ ھتے ہوئے عمران خان کو افطار پر ہی مدعو کرلیں،حکومت کی جانب سے جب رابطے کیلئے پہل کاری ہوگی اور دونوںرہنما مل بیٹھیں گے تواس اُمید کے دروازے سے جھا نکاجاسکتا ہے کہ ملکی مفاد میں کوئی میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت سمیت اہم بریک تھرو بھی ہو جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں