جمہوریت میں چراغ سے ہی چراغ جلتا ہے !
تحریک انصاف کے متعددرہنما پارٹی کو خیرباد کہہ چکے اور یہ سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے، یہ وفاداریاں بدلنے کا سلسلہ کب رکے گا ،اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا جاسکتا ہے نہ ہی کسی کو معلوم ہے ،تاہم عمران خان کے مطابق یہ جبری شادیوں کی طرح جبری علیحدگیوں کا معاملہ ہے،اتنی جلد روکنے والا نہیں ہے ،ایک طرف جبری وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی ہیں تو دوسری پارٹی پر پابندی لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں ،گزشتہ روز وزیر دفاع خوجہ آصف نے بڑے واضح انداز میں بتا یاہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے ،جبکہ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفرکا کہناہے کہ اگر پی ٹی آئی پر پابندی لگائی گئی تو عدالت ایک ہی دن میں کالعدم قرار دے دے گی۔
پا کستان میں جبری سیاسی وفاداریاں بدلوانے اور سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا نے کی بہت پرانی تاریخ ہے ،پچاس کی دہائی میں پہلی بار روالپنڈی سازش کیس میں کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی ،ساٹھ کی دہائی میں جماعت اسلامی کو بھی کچھ دیر کیلئے اسی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ،جبکہ ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی ،مگر یہ ساری سیاسی جماعتیں ہی نئے نام کے ساتھ کام کرتی رہی ہیں ،
جمہوری سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آئیڈیا کبھی مفید ثابت نہیں ہوا ،زیادہ سے زیادہ ہرپارٹی کو نئی شناخت کا غلاف ہی چڑھانا پڑا ہے، اس کی عوامی حمایت اور مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ،پی ٹی آئی کیلئے بھی پابندی کا حربہ آزماتے ہوئے سیاسی جماعتوں پر پابندی کی تاریخ و اثرات کو مد نظر ضرور رکھنا چاہئے ۔
پا کستان کے اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا نہ ہی اپنی سیاسی تاریخ سے کچھ رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں ،یہ اقتدار کی ہوس میں ساری جمہوری حدود پار کرتے جارہے ہیں ،اپوزیشن احتجاج کے نام پر اپنی حدود سے تجاوز کررہی ہے تو حذب اقتدار اپنی طاقت کے زور پر آئین و قانون کی پا مالی کررہے ہیں ،ایک طرف عدلیہ کے فیصلوں سے انحراف کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اپنے سیاسی مخالفین کو انتہائی انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اس سے تصادم مزیدبڑھنے اور کشیدگی میں اضافہ کا اندیشہ ہے
،مقتدرہ اور حکمران اتحادی قیادت کی جانب سے بار ہاتحریک انصاف پر پابندی لگانے کا اشارہ دیا جارہاہے، ان سب کا کہنا ہے کہ جلائوگھیرائوکی بنیاد پر کئی تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا تو کیا اس کردار پر پی ٹی آئی کو عزت دی جائیگی ، اگر اس بیان میں محض حکومتی ارادے شامل ہیں تو یہ ملکی سیاسی تاریخ میں ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ ہی ہو گا۔حکمران اتحاد کو جمہوری روایات کا احساس ہے نہ ہی اپنی ساکھ کا کچھ خیال آرہا ہے ،حکمران قیادت جتنا مرضی اپنے سیاسی مخالفین پر ظلم تشدت کرلے ،جتنی مرضی وفاداریاں تبدیل کروالے اور پا بندیاں لگوالے ،اپنی کھوئی ساکھ بحال نہیں کر پائے گی
،حکومت اپنے دیڑھ سالہ دور اقتدار ماسوائے سیاسی محاذ آرائی کے کچھ کرپائی نہ ہی آئندہ کچھ کر پائے گی ،حکمران اتحاد کی ناقص کا کردگی سے عوام انتہائی مایوس ہو چکے ہیں ،عوام انتخابات چاہتے ہیں ، مگر حکمران اتحاد اقتدار جانے کے ڈر سے انتخابات کرانے سے گریزاں ہیں ،انتخابات سے راہ فرار کیلئے ہی عدلیہ کی حکم عدولی کے ساتھ آئین و قانوں کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں ،اتحادی اپنا اقتدار بچانے اور دبارہ حاصل کرنے کیلئے ہر جائز و ناجائز کرنے پر تلے نظر آتے ہیں ۔
ہمارے اہل سیاست کو جمہوریت کی اصل روح کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے ،کیو نکہ ہم جن مسائل سے دوچار ہیں،ان کاسبب ماسوائے اس کے کچھ نہیں
کہ ہماری سیاسی قیادت جمہوریت کی دعوئیدار ہونے کے باوجود جمہوریت کی بنیادی اقدار کا فہم ہی حاصل نہیں کر پائے ہیں،جمہوریت میں چراغ سے چراغ جلتا ہے ،جبکہ ہمارے ہاں یہ ضد بڑھتی ہی جارہی ہے کہ دوسرے کا چراغ گل کرکے اپنی روشنی کا دعویٰ ثابت کرنا ہے ،اس کے نتائج من حیث القوم بھگت رہے ہیں اور آئندہ مزید بھگتے ہی رہیں گے ،جب تک کہ اپنے آمرانہ رویوں میں تبدلی لاتے ہوئے حقیقی جمہوری رویہ نہیں اپنائیں گے۔
ملک میں سیاسی استحکام کیلئے کچھ دیر سے ہی سہی ،مگر پی ٹی آئی قیادت نے ایک بار پھر مذاکرات کی پیش کش کر دی ہے ،لیکن حکمران قیادت مذاکرات کی جانب بڑھتی نظر آتی ہے نہ ہی ملک میں انتخابات کرنا چاہتی ہے، اْس نے سیاسی استحکام لانے کا ایک ہی راستہ نکال لیا ہے کہ ریاست کی طاقت کے زور پرپی ٹی آئی کو شکست و ریخت کا شکار بنایا جائے، اس لحاظ سے کسی حد تک جاری کشمکش میں ٹھہراؤ آ گیا ہے
کہ زمان پارک میں ایک طرف سناٹا اور دوسری جانب عمران خان بڑے جلسے کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے ہیں، اس کی حکومت اجازت نہیں دے گی اور کارکنوں میں بھی ایک خوف پایا جاتاہے ،تاہم یہ خوف کب تک برقرار رکھا جاسکتا ہے اور اس خوف کے سائے میں کب تک سیاسی استحکام کی خود فریبی میں مبتلا رہا جاسکتا ہے ،اس خود فریبی سے نکلے کا ایک ہی راستہ ہے کہ مذاکرات سے مفاہمت کا چراغ روشن کیا جائے ،اس مفاہمت کے چراغ کی روشنی میں ہی سارے مسائل کے حل کی حقیقی راہیںنکل پائیں گی۔