مٹی کے زمانے 37

مٹی کے زمانے

مٹی کے زمانے

تحریر۔عاصم نواز طاہرخیلی (غازی/ ہری پور)

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے کم و بیش پچیس سال پہلے ہر برس کسی خاص سیزن میں ہمارے گھر کے پاس حجرے میں مٹی کے برتن بیچنے والا آیا کرتا تھا۔وہ چند دن ادھر ہی قیام کرتا اور گاؤں والے اس کے کھانے پینے کا بخوشی بندوبست کرتے۔اس کے پاس مٹی سے بنے گھڑے،گلاس،جگ،پلیٹیں اور دیگر کء چیزیں ہوتیں جنہیں لوگ بڑے شوق سے خریدتے تھے۔اس شخص کے آنے کا سب لوگ انتظار کرتے تھے۔لوہے،تانبے یا دیگر دھاتوں سے بنے برتن اس وقت بھی میسر تھے لیکن گھروں میں مٹی کے چولہے،مٹی کے برتن اور مٹی کے کچے صحن رکھنے کو عمدہ و اعلی سمجھا جاتا تھا۔
ہر گھر میں مٹی سے بنا ”اگی والا اندر”، نماز پڑھے کے لیے مٹی سے بنی جگہئِ نماز، گھڑے رکھنے کے لیے مٹی سے بنی تَھلی، دوپہر اور رات کی روٹی پکانے کیلیے مٹی کا تندور اور سالن پکانے کے لیے مٹی ہی کی بنی دیگچی اہم جزو سمجھے جاتے تھے۔بچوں کے کھیلنے کے لیے مٹی کے ”کُگھو کہوڑے” اور مٹی کے صحن لازم تھے۔شادیوں میں مٹی کی دیگیں اور مٹی کے برتن میں کھانا پیش کرنا عام تھا

اور بغیر امیر غریب کا فرق کیے پیش کرنا ہی دستور تھا۔کیا زمانہ تھا، کیسے خالص انداز تھے اور خاکی پیرہن کو مٹی سے کتنی محبت تھی۔کچے صحن میں بارش کی پہلی بوندیں گرنے سے جو مٹی کی مہک اٹھتی تھی وہ کستوری کو بھی شرماتی تھے۔بغیر میک اپ کے آٹا گوندھتی،مٹی تھاپتی،پراندے لہراتی دوشیزاؤں پر حوروں کا گمان ہوتا۔کھیتوں میں مٹی اڑاتے اور مٹی پر بیٹھے بانسری کی دھنیں بکھیرتے گھبرو اک پرقار پہاڑ لگتے۔سفید داڑھی اور کپڑوں میں ملبوس بزرگ مٹی کا پھیلتا نور لگتے

۔مائیں اور دادیاں نانیاں مٹی کی بہترین خوشبو لگتی تھیں۔سادہ لفظوں میں رب نے انسان کو مٹی سے تخلیق کیا اس لیے مٹی سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ارشاد ربانی ہے:ترجمہ: ’’اور اسکی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا.‘‘ (الروم 20)۔
مٹی انسان کی زندگی کا اہم ترین جزو ہے۔اسکی تخلیق کے ساتھ ساتھ اس کے لیے اناج کا زریعہ بھی مٹی اور اسکی موت کے بعد حفاظت کا بہترین زریعہ بھی مٹی۔اس حقیقت کو سمجھنے والے لوگ مٹی سے اپنا رشتہ کبھی نہیں توڑتے

۔بہت افسوس کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ آج کا انسان مٹی سے اپنا تعلق کمزور کر بیٹھا ہے۔یہی مٹی تھی کہ جو پہلے پہل لوگوں کو اک دوسرے سے جوڑے رکھتی۔بغیر کسی تفریق کے ایک جیسے برتنوں کا استعمال اور کھیتوں کھلیانوں سے محبت انسان کو فطرت کے نزدیک رکھتے،بچے مٹی میں کھیل کھیل کر قوت مدافعت کے ساتھ ساتھ مٹی کے شاہکار بنتے مگر اب جدت کی دوڑ میں مٹی سے بنا انسان اپنی مٹی اپنے ہاتھوں پلید کر رہا ہے۔اب نا وہ خالص خوبصورتیاں رہیں اور نا ہی وہ خالص جزبے کہ جن کی بنیاد پر محبتیں پروان چڑھتی تھیں

اور صبح کے سورج سے رات کے چاند تک خالص روشنیاں روحوں کو منور کرتی تھیں۔آج کے دور میں مٹی سے دوری جسمانی و روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ انسان کو خالص پن سے دور جزبات سے عاری اک مشین بنا چکی ہے جس پر کسی شاعر کا یہ شعر مکمل طور پر فٹ نظر آتا ہے:
خاک میں دولت پندار و انا ملتی ہے 
اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے 
اب آخر میں حضرت انسان کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہ اسے مٹی شناس کر دے اور یہ خاک کا پتلا خود کو خاکی سمجھ کر خاک سے گل گلزار پیدا کرے۔۔آمین ثم آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں