41

زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہواہاتھی تیس لاکھ کا

زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہواہاتھی تیس لاکھ کا

افکار سحر
ڈاکٹر عبدالرزاق سحرؔ

عمران خان نے تینوں صوبوں اور وفاق پر برسرِاقتدار ہونے کے باوجود ایسے اقدام نہیں کئے ۔جو ملک اور قوم کو مالی بحران سے نکال کر افراط زر کو کنٹرول کر سکیں۔ماسوائے وزرا ء کی تنخواہوں میں تین سو فیصد اضافہ کرنے کے ۔غریب آدمی کے لیے روزی روٹی کمانے کے اسباب مہیا نہیںکیے۔بد قسمتی سے دنیا میں ہمارا پیارا ملک بے روزگاری میں صفِّ اول پر ہے ہماری حکومت آئی ایم ایف کے پیسوں سے چلتی ہے جیسے مغلیہ سلطنت دلی انگریز سرکار کے وظیفہ پر چلتی تھی

۔ آئی ایم ایف پیسہ نہ دے تو حکومت دھڑام سے گر جاتی ہے۔حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس ضروری ہے لیکن ہماری غریب قوم پہلے ہی مہنگائی کی ماری ہوئی ہے وہ مزید ٹیکس دینے کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔یہ بات کبھی حکمرانوں کو سمجھ نہیں آئی وہ طاقت کے نشے میں عوام کا خون نچوڑنے کے نت نئے طریقے اور زاویے ایجاد کرتے رہتے ہیں ۔ شہزاد افق سے ایک مشہور کہاوت پر بات ہوئی کہ ،، زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہوا سوا لاکھ کا،، میں نے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ لوگوں کا بتایا جائے کہ ہمارے ملک میں زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مرا ہواہاتھی سوا لاکھ کا نہیں بلکہ تیس لاکھ کا ہے

۔ہمارے ملک کے سفید ہاتھی ساری فصل کھا جاتے ہیں عوام منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ایک ادارے کا مال سمیٹ کر نوکر چاکر، گاڑیاں، بنگلے اور پنشن وغیرہ لے کر من پسند دوسرے محکمے میں پر بر جمان ہوکر اس کا مال کھانا شروع کر دیتے ہیں۔اپنی مرضی کی تنخواہیں لیتے ہیں ۔کمانڈ فنڈ اور ادارے کی سہولیات کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور تو اور سارامال اکٹھا کر کے اگلے ادارے پر برجمان ہوجاتے ہیں دو دو تین تین پنشنیں اور تنخواہیں ،گاڑیاں ،بنگلے،گیس ،بجلی،پانی کے بل ،نوکر چاکر صرف ان کے لیے ہیںبلکہ ان کے خاندانوں کے لیے بھی ہیں ۔اس لیے مرا ہوا ہاتھی تیس لاکھ کا ہے

۔میں حکومت اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بڑی خوشی کا اظہار کر رہاہوں کہ وزیرِخزانہ اسحاق ڈار صاحب نے ان ہاتھیوں کی قیمت کم کرکے حکومتی خزانے کو بڑا ریلف دینے کا قدم اٹھایا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نام لیے بغیر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ لوگ دو دو تین تین پنشنیں اور ساتھ تنخواہیں بھی لے رہے ہیں ۔دو دو تین تین محکموں سے سہولیات اور گاڑیاں لے رہے ہیں اور آگے بیچ رہے ہیں جو کہ اس قوم پر زیادتی ہے۔ اس لیے پنشن اصلاحات ناگزیر تھیں ۔جن کی تعداد چار ہے

۔۱۔ دو دو تین تین پنشنز کی بجائے ایک ہی پنشن دی جائے گی۔۲۔ پنشن کو بناتے وقت ایڈھاک الاوئنس کو کمپونڈگ کے بغیر نیٹ پنشن میں شامل کیا جائے۔۳۔ پنشنراوراس کی بیوی،ماں باپ کی وفات کی صورت میںجو اس کے بچوں یا وارثان کو ملتی ہے اس کی معیاد، دس سال کی جارہی ہے۔ ۴۔گریڈ سترہ سے اوپر والے افسرز کو دوبارہ نوکری کرنے کے لیے تنخواہ یا پنشن میں سے ایک کو حاصل کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ تین ہزار سی سی گاڑیاں جو افسرانِ بالا اور وزیروں مشیروں کو ملتی ہیں

جو کہ دو دو تین تین بار لے لیتے ہیں اور آگے بیچ دیتے ہیں اور کمیشن لیتے ہین اور ڈیوٹی بچاتے ہیں وہ اب نہ لیں سکیں گے۔میرے خیال میں آج اس اقدام کی اشد ضرورت تھی جوکہ حکومت نے کرکے عوام کو بڑا ریلف دیا ہے بالکل اسی طرح حکومت
ایسے اقدامات کرنے ہوں گے۔کیونکہ مالی بحران سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنی آمدن بڑھانے کے ساتھ ساتھ اخراجات کو بھی کم کرنا ہوگا۔جس کی طرف پہلا قدم بڑھا دیا گیا ہے ۔میںاس قوم اور حکومت وقت مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں ایسی مزید اصلاحات کی جائیں جن سے قومی خزانے پر بوجھ کم ہو اور عوام خوشحال ہو سکیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں