قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 82

کوئی در میانی راستہ نکلا جائے !

کوئی در میانی راستہ نکلا جائے !

اتحادی حکومت کی مدت ختم ہونے میں آٹھ ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے ،لیکن انتخابات کے انعقاد پر اب بھی ابہام ہی پا یا جارہاہے،اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری ہوئی نہ ہی اس کے مطابق نئی حلقہ بندیاں ہوئیں تو پھر انتخابات بر وقت کیسے ہوسکیں گے،جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ الیکشن کی تیاری کا تقریباً آغاز ہوچکا ہے، اسمبلی اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوجائے گی،

ایک طرف حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے بیانات کا تذاد ہے تو دوسر ی جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول بارے کوئی خبرہی نہیں ہے ،اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت بر وقت انتخابا ت کر نے میں کتنی غیر سنجیدہ ہے ۔حکمران اتحاد ی عام انتخابات میں جانا چاہتے ہیں نہ ہی اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں،اتحادیوں کی پوری کوشش ہے کہ پہلے اپنے سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹایا جائے

اور پھر انتخابات میں جیت کی یقین دھانی کے ساتھ آیاجائے ،اس حوالے سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف فائنل کریک ڈائون کی تیاریاں زوروں پر ہیں،پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی قیادت کو سیاست سے بے دخل کر نے کیلئے سارے حر بے آزمائے جارہے ہیں، حکمران اتحاد کیلئے بہتر ہوگا کہ آئین و قانون انصاف کے دائروں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، شہری و انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور آئندہ انتخابات سے کسی بھی لیڈر اور پارٹی کو زبردستی باہر کرنے سے اجتناب کیا جائے،یہ حق عوام کا ہے اور عوام کو ہی اپناحق استعمال کر نے دینا چاہئے ، اگر طاقت کے زور پرزبر دستی ایسا کیا جاتا ہے تو اگلے انتخابات نہ صرف مشکوک ہوجائیں گے ،بلکہ سیاسی بحران مزید سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔
اس ملک کے سیاسی بحران کا واحد حل صاف و شفاف انتخابات ہی ہیں ،اس کے باوجود شفاف انتخابات کرانے کیلئے کوئی لائحہ عمل بنایا جارہا ہے نہ ہی کوئی موثر اقدامات دکھائی دیتے ہیں، عام انتخابات سے پہلے شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے سب کو مل بیٹھ کر قابل قبول حکمت عملی واضح کر نا ہو گی ،آئندہ انتخابات میں سوائے دہشت گرد تنظیموں کے سبھی کو مساوی شرکت کا پورا موقع دینا ہو گا، اگر کچھ سیاسی کارکنوں پہ مقدمات چل رہے ہیں تو ان میں بلا امتیاز انصاف ہو نا ہی نہیں،انصاف ہوتا بھی نظر آنا چاہئے

،لیکن اس کے برعکس اپنی سیاسی محاذ آرائی میں مقتدر حلقوں کو گھسیٹا جارہاہے، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے پر زور دیا جارہا ہے، فوج کو سیاست سے دوری کے اپنے عہد پر ہی قائم رہنا چاہئے ،اس کیلئے ضروری ہے کہ عام لو گوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہی کیا جائے ،اگر اس کے بر عکس کیا گیا تو نہ صرف عالمی طور پر شور شرابا ہو گا ،بلکہ سول سوسائٹی بھی اسے قبول نہیں کرے گی۔
اہل سیاست کی باہم مارا ماری کے باعث پہلے ہی اتحادی حکومت تیزی سے سویلین میدان چھوڑ رہی ہے اور اہم ترین شعبوں کا کنٹرول مقتدرہ کے ہاتھوں میں دئیے چلی جارہی ہے،اتحادی حکومت کے بارے پہلے ہی اندرونی اور بیرونی طور پر پپٹ حکومت کا تاثر ہے ، اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو رہی سہی نام نہادجمہوریت کا لگا لیبل بھی جاتا رہے گا ،حکمران قیادت کو ہوش کے ناخن لیتے ہو ئے اپنے مخالفین کو سیاسی میدان سے نکالنے کی غیر جمہوری روش سے اجتناب کرنا چاہئے اور باہمی مکالمے سے کوئی در میانی راستی نکالنا چاہئے

، لیکن سیاسی ماحول اتنا تلخ تر ہوگیا ہے کہ سیاسی مکالمے کی کوئی اْمید نظر ہی نہیں آرہی ہے،اس صورت حال میں ملک کتنا سیاسی بحران مزید برداشت کرپائے گا ،اس بارے کوئی پیش گوئی کرناانتہائی مشکل ہے ۔اہل سیاست نے پاکستان کی سیاست کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں یہ کہنا بہت مشکل ہو گیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کیا ہو نے جارہا ہے، اس وقت صرف ایک ہی بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی بحران کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گا،یہ جتنا گہرا ہو گا،

اتنا ہی انتشار ہو گا، اتنی ہی بدامنی پھلے گی،اگر اس بحران کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس کے نتائج ہم سب کو ہی بھگتنا ہوں گے، اگرسیاسی جماعتیں ، ادارے یا عوام کی کوئی اہمیت ہے تو اس ملک سے ہی ہے، یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے ،یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیںر ہے گا ،اس ملک کو واپس ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کیلئے عام شہری سے لے کر سیاسی قائدین تک اور سیاسی قائدین سے لے کر ملکی اداروں تک سب کوہی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

،ملک سے الزام و انتشار اور انتقامی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا اور مل کر آگے بڑھنا ہوگا،اس کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ضد و اَنا کا خاتمہ کرتے ہوئے قو می مفاد میں لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کوئی در میانی راستہ نکلنا ہو گا، اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو اس کے نتائج ہماری سوچ سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں