بے یقینی سے نکلنے کا راستہ انتخابات!
عوام عام انتخابات کے انعقاد کے منتظر ہیں ، الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے انعقاد کے لئے تمام تیاریاں مکمل ہونے کا عندیہ دیے دیاہے ،الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ قانونی اصلاحات کے مطابق ہی الیکشن کرائے جائیں گے، الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے جن عزائم کا اظہار کیا جارہاہے،
وہ بہت حوصلہ افزا ہیںاورجمہوری تقاضا بھی ہے کہ انتخابات آئین میں طے شدہ شیڈول اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہی کرا دیے جائیں، تاہم الیکشن کمیشن کے تمام تر نیک خیالات کے باوجود انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ملک کی سیاسی فضا میں بے یقینی اب بھی پائی جارہی ہے، اس سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کے آزادانہ حق رائے دہی کیلئے اعتماد کی فضا پیدا کی جائے
، لیکن ملک میں جاری مائنس پلس کے کھیل میں منصفانہ انتخابات کی فضاء بنتی کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔الیکشن کمیشن نے بظاہر آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد سے متعلق عوام کے سامنے ایک نقشہ تو پیش کر دیا ہے ،لیکن اس ملک میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، عوام ان میں سے کسی ایک کے بارے بھی مطمئن نہیں ہیں، الیکشن کمیشن کا کام صرف انتخابات کروانا ہی نہیں،
بلکہ آئین وقانون کے مطابق انتخابات کا آزادانہ ،غیرجانبدارانہ، صاف وشفاف ہونا بھی ضروری ہے، تاکہ عام عوام ان کے نتائج کے بارے مطمئن ہو سکیں،لیکن یہاں عوام کی منشاء کاکسے خیال ہے ، یہاں تو سب ہی اپنے حصول مفاد میں ہر چیز کوہی دائو پر لگانے کیلئے تُلے نظر آتے ہیں ۔
یہ اس ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر ہونے والے اب تک کے کم و بیش تمام ہی انتخابات کے نتائج جہاں متنازعہ رہے ،
وہیںالیکشن کمیشن کے کردار پر بھی سوالیہ نشان رہا ہے، گزشتہ عام انتخابات کے دوران جس طرح آر ٹی ایس کے نام سے متعارف کرایا جانے والا نظام ناکارہ بنا گیا اور اس کے نتیجے میں ملی بھگت سے انتخابی نتائج تیار کر کے قوم پر مسلط کئے گئے، یہ اب کوئی راز نہیں رہا ہے،اس کے بعد دو صوبائی اسمبلیوں کے تحلیل ہونے پربروقت الیکشن کرانا، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی ،لیکن الیکشن کمیشن نے نہ صرف اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ،بلکہ اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے واضح احکام پر عمل کرنے سے بھی انکار کرتے ہوئے
حکومت وقت اور مقتدر قوتوں کے آلہ کار کا کردار ادا کیا ،یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کے دو صوبوں میں آج بھی ایسی غیر آئینی نگران حکومتیں مسلط ہیں کہ جن کی آئینی مدت تین ماہ تھی، مگر انہیں اب صوبے کے وسائل اور اختیارات استعمال کرتے ہوئے چھ ماہ سے زائد ہو چکے ہیںاور انہیں کو ئی پو چھنے والا ، کوئی روکنے والا کہیں دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے۔
یہ سب کچھ ایسے ہی کب تک چلتا رہے گا اور عوام کو کب تک ایک کے بعد ایک ایشو کے پیچھے لگا کر بے وقوف بنایا جاتا رہے گا ،یہ وہی الیکشن کمیشن ہے کہ جس کے پاس کچھ ہی عرصہ پہلے صرف دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیے ذرائع و وسائل دستیاب نہیں تھے،مگر اب پورے ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی وقت میں عام انتخابات کرانے کیلئے سارے ہی وسائل دستیاب ہو گئے ہیں
،یہ ایک دم سے سارے ذرائع کہاں سے دستیاب ہوگئے ہیں؟ الیکشن کمیشن ضمنی سے لے کر بلدیاتی الیکشن تک بر وقت آزادانہ و منصفانہ بنانے میں ناکام رہا تو اب آئین کی منشا پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بناپائے گا،عوام کے خدشات اپنی جگہ بجا ہیں کہ ایک بار پھر وہی پرانا سکرپٹ دہرایا جائے گا ،ایک بار پھر آزمائے کو ہی ملی بھگت سے عوام کے منشا کے خلاف ان پر زبر دستی مسلط کیا جائے گا ۔
اس وقت ایک طرف پوری قوم مہنگائی کی ٓگ میں جل رہی ہے تو دوسری جانب امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے ، ملک کے سیاسی و معاشی حالات سلجھنے کے بجائے رو ز بروز مزید الجھتے ہی جارہے ہیں ،اس اَبتراور بے یقینی کی صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ بر وقت آزادمنصفانہ ،شفاف انتخابات کا انعقاد ہے
،تاکہ عوام اپنا آئینی حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے دیا نتدار و مخلص قیادت کا انتخاب کر سکیں ،لیکن انتخابات کے بروقت انعقاد پر جان بوجھ کر ابہام پیدا کیا جارہا ہے ،اگر عوام کو اپنے نما ئندگان کے انتخاب کا آزادانہ حق رائے دہی بروقت دیا جائے گا تو ہی در پیش سارے خدشات و پیچیدگیاں ختم ہو سکتی ہیں
،اگر ایک بار پھر بند کمروں کے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے انتخابی نتائج عوام کی توقعات کے برعکس آئے تو ایساگھمسان کا رن پڑے گا کہ سارے ہی منصوبہ سازوں کی سٹی ہی گم ہوجائے گی ، انہیں بھاگنے کا کوئی راستہ ملے گا نہ ہی چھپنے کی کو ئی جگہ مل پائے گی۔ ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْگ