40

ہم اور ہماری لاتعداد مساجد

ہم اور ہماری لاتعداد مساجد

نقاش نائطی
۔ +966562677707

مسلم معاشرے کی عالیشان مساجد،کیا وقت رسول ﷺکی مسجد نبوی والے منصب و اقدار پر گامزن کی نہیں جاسکتی ہیں؟قول رسول ﷺ مطابق سمندر کی جھاگ بقدر عالم کے 200 کروڑ اور بھارت ہی کے30 کروڑ ہم مسلمان، اور گلی گلی تعمیر ہونے والی ہزاروں لاکھوں عالیشان مساجد، وقت رسول ﷺ والی مسجد نبوی کے مصداق علاقے کے مسلمانوں کی دستگیری کے عظیم مقصد پر گامزن، کیا نہیں کی جاسکتی ہیں؟ کیا ہم بھول گئے،نصف عالم پرحکمرانی کرنے والے خلفاء راشدین کے دربار، صحن مسجد نبوی میں، ایسے لگتے تھے جیسے آج گاؤں کی مساجد میں بعد عصر پند و نصائح کی محفلیں سجائی جاتی ہیں،

قیصر و قصرا کے خزانے مسجد کے صحن میں ایسے ڈھیر کئے جاتے تھے، جیسے ہفتہ واری مارکیٹ میں ترکاری فروٹ کے انبار پڑے پائے جاتے ہیں۔ ہم نے مبرد ہوائیں مسجدوں میں چلا، نمازیوں کی تعداد تو بڑھا لی ہے، لیکن آج کے ان لاتعداد نمازیوں میں وہ جذبہ جہاد ڈھونڈنے سے بھی کیا ملا کرتا ہے؟ کیا اللہ کے پاس لاتعداد فرشتوں کی کمی تھی، اس کی حمد و ثناء کرنے کے لئے، کہ اس نے آدم علیہ السلام کو پیدا کر، انسانیت کو دنیا میں آباد کیا؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ کا وہ قول ہم تک نہیں پہنچا ہے کہ خالق کائینات کی رضا و خوشنودی، مخلوق خدا کی مدد و نصرت و خبر گیری ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے

۔ کیا آج کے مسلم معاشرے میں ہر شہر،گاؤں، گلی گلی،تعمیر کی جانے والی عالیشان مساجد، صرف پانچ وقت نماز کے لئے مختص رکھنے کے بجائے، ہر مسجد کے آس پاس،دائیں بائیں،آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کی مسلم آبادی کے اندراجات (ریکارڈ) ائمہ مساجد و متولیان مساجد کے پاس ہونا کیا ضروری نہیں ہیں؟ کیا محلہ کی بیواؤں و یتیم بچیوں کی کفالت و انکی تعلیم و تربیت اور انکی شادی خانہ آبادی کروانے کی ذمہ داری، مساجد کے توسط سے محلہ کے تونگروں کی نہیں ہے؟ کیا

آج کے ہم مسلمان محنت مزدوری اور روزگار و تجارت کر، اپنے لئے اور اپنی آل اولاد کے لئے، جہان کروڑوں کی جائیداد چھوڑ جانے کی سکت جو رکھتے ہیں، تو کیا محلہ کی چند غریب و مسکین بچیوں کی کفالت و مناسب نگہداشت کر، انہیں وقت پر نکاح کر دئیے، ان کا گھر بسائے جانے کی فکر سے انہیں آزاد کئے، آج کے اس پراگندہ منافرتی سنگھی ماحول میں، انہیں سنگھی نوجوانوں کے محبت بھرے مخر جال(لؤ ٹریب) میں پھنسنے سے، کیا بچا نہیں سکتے ہیں؟ 2014 کے بعد سے اب تک پورے بھارت سے، ایک عام اندازے مطابق،

دس بارہ لاکھ بےکس و معصوم بچیوں نے، جو مسلم معاشرے میں لایعنی پنپتے جہیز، جوڑے کی رقم،منھ دکھائی، ہلدی رسوم کے نام پر اور مرد آہن پر سنت قرار دئیے ولیمہ کے اخراجات، مجبور و بےکس نساء کے والدین پر ڈالتے ہوئے، مسلم معاشرے میں نساء کے گھر بسانے کو دشوار گزار بناتے ہوئے، اپنا ایمان دھرم داؤ پر لگا، سنگھی پریم بندھن میں بندھنے کے نام پر، ارتداد کرنے والیوں کے لئے، کیا رب دوجہاں مسلم معاشرے کے سرمایہ داروں سے کل قیامت کے دن جرح نہیں کریں گے؟
آج کے اس جدت پسند دور،لیپ ٹاپ،ڈیسک ٹاپ اور ہر نوجوانوں کے ہاتھوں دستیاب اسمارٹ موبائل فون پر،محلے کے تمام باشندگان کی تفصیل جمع کر رکھ، انکی دیکھ بھال کفالت کا اجتماعی انتظام کیا جانا،وقت کی ضرورت کیا نہیں ہے؟ جہاں انسان خصوصاً کل کا غریب تر ملک بھارت چاند پر تک کمندین ڈال رہا ہے،کیا اسی بھارت کے ہم مسلمان،آج کی ہمارے تعیش پسندانہ مزاج کی تسکین کے لئے،

عالیشان تعمیر شدہ مبرد مساجد کو ہر محلہ کے مسلمانوں کے لئے فلاحی گھر کی صورت نہیں ڈھال سکتے ہیں؟ صالح معاشرے کے خواب بننے والوں کو، اس سمت سوچنا اورتدبر و تفکر سے واقعتاً صالح معاشرے کی تکمیل کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ جو خواب شرمندہ تعبیر ہونے کے لئے دیکھے جاتے ہیں وہی خواب صالح معاشرہ کو فی زمانہ ترتیب دے سکتے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں