یہاں پر دِکھتا ہوتا نہیں ! 42

انداز حکمرانی بدلنا ہوگا !

انداز حکمرانی بدلنا ہوگا !

اس ملک میں پہلی بار کوئی سیاسی جماعت نہیں ،عوام مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں ،یہ لہر عوامی سطح پر از خود اُٹھی ہے ، یہ لہر اب روکے گی نہ ہی دبے گی ، بلکہ اس میں مزید شدت ہی آتی جائے گی ،اس بار پورے ملک میں ہڑتال و احتجاج کرنے والے پرامن رہے ہیں، لیکن یہ ہماری قومی تاریخ رہی ہے کہ حکومتیں جب عوام کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ پاتیں تو ردعمل پرامن نہیں رہتا ہے،ملک پہلے ہی ایک سیاسی اکھاڑے میں بدل چکا ہے، جہاں ہر بار عام لوگ ہی چت کر دیے جاتے ہیں،اگر یہ ظلم ایسے ہی جاری رہا تو اگلی بار انتشاری قوتیں بھی میدان میں آ سکتی ہیں۔
اہل سیاست پہلے ہی موقع کے انتظار میں نظریں لگائے بیٹھے ہیں ، عوام مہنگائی کے خلاف سڑ کوں پر نکلے ہیں تو اس کے ذمہ دارن پتلی گلی سے نکلنے کے بجائے عوام کے حق میں ہی بیانات داغ نے لگے ہیں ، یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو ایک بار پھر ور غلا لیں گے اور اپنے پیچھے لگا لیں گے ، جبکہ اس بار عوام کا پارہ بہت ہائی ہے ،اس بات کا نگران وزیر اعظم کو بھی ادراک ہو چکا ہے،اس لیے عوامی شکایات کاازالہ کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے تین اجلاس بھی کرائے، لیکن انہیں عوام کو ریلیف دینے کا کوئی راستہ ہی نہیں مل رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے توراستہ موجود ہے، لیکن وزیر اعظم اور ان کے رفقا اس طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں،اس سے قبل منتخب حکومت نے بلا جواز اپنی مجبوریاں بنا ئے رکھیں اور اب نگران حکومت مجبوریون کی آڑ لے رہی ہے ،جبکہ ایک نگران حکومت کو ایسی مجبوریوں سے آزاد ہونا چاہیے،

نگران وزیر اعظم کو فوری طور پر ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کا جہاں حکم دینا چاہئے ،وہیں ٹیکس چوروں کی حوصلہ افزائی کر نے والوں کا بھی محاسبہ کر نا چاہئے ، یہاں پرصرف سمگلنگ کے تیل سے ٹیکس اہداف خطرے میں نہیں ہوتے، بلکہ بدعنوانی کا انسداد نہ کرنا اور بدعنوان افراد کو حکومت میں شامل کرنے سے بھی ٹیکس چوروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، اس نگران حکومت میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو کہ ہرر دور اقتدار میں حکمرانوں کے مالیاتی جرائم میں ان کے سہولت کار ی کرتے ہیں۔
اس نگران حکومت سے عوام نے کچھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر رکھی ہیں ، اس کے باو جود نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو حد درجہ رلیف دینے کے ساتھ بر وقت حق رائے دہی کا موقع فراہم کر ے ، لیکن انہوں نے تو چند دنوں میں ہی ثابت کردیا ہے کہ نگراں حکومت انتخابات کرانے نہیں ،بلکہ پی ٹی آئی چیئرمین کو سزا دلوانے کے ایجنڈے پر آئی ہوئی ہے ، ایک طرف پی ٹی آئی قیادت مائنس کرنے کا ایجنڈا ہے

تو دوسری جانب عوام کے سامنے ڈٹ گئے ہیں،یہ کہتے ہیں کہ مہنگائی اور بلوں میں اضافہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس پر پہیہ جام ہڑتال یا احتجاج کیا جائے،حالانکہ ملک بھر میں سارے کا سارا پہیہ تو پہلے ہی جام ہو چکا ہے۔
ملک میں ہر کاروبار سے لے کر غریب کے گھرکے چولہے تک کی آگ بجھ چکی ہے ، غریب عوام کو ایک وقت کی روٹی پوری کر نے کے لالے پڑے ہیں اور حکمران مہنگائی میں اضافہ کیے جارہے ہیں، کروڑوں لوگ متاثر ہیں اور نگراں وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ یہ غیر اہم مسئلہ ہے ،اس پر سیاست اور انتخابی مہم نہ چلائی جائے تو پھر کس پر چلائی جائے ،اس بنیاد پر ہی انتخابی مہم چلنی چاہیے

کہ بجلی، پٹرول، مہنگائی، بیروزگاری، امن وامان دیا جائے، کیو نکہ اب حکمرانوںکے خوشحالی کے دعوے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے دعوے، ملک کو ٹائیگر بنانے کے دعوے سب ہی فرسودہ ہوچکے ہیں، یہ سارے نعرے پٹ چکے ہیں، اب کوئی پرانا نہیں،نیا نعرہ ہی چلے گا اور وہ عوام سڑکوں پر لگائے چلے جارہے ہیں ۔
اس پر حکمران طبقہ کوئی سیاست کرتا ہے تو اسے تو سیدھی سادھی منافقت ہی کہا جائے گا،اس ملک میں جتنے الیکشن ہوئے، جتنے بھی حکمراں آئے، عوام سے سب نے ہی وعدہ خلافیاں کی ہیں،انہوں نے ملک و عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا ، سب نے ہی اپنی تجوریاں بھری ہیں اور ایک دوسرے کو مود الزام ٹھہرا تے ہوئے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، نگران حکمران بھی سابقہ حکمرانوں کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں

،اس لیے بجلی کے بل پر سیاست ان کی سیاست سے تو لاکھ درجہ بہتر ہے،لیکن اس جوش میں بھی ہوش سے ایک بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس انداز حکمرانی میں عوامی مسائل کا سد باب کبھی ممکن نہیں ہو گا ،اس کے لیے انداز حکمرانی بدلنا ہوگا تو ہی عوام کی زندگی میں بھی تبدیلی آئے گی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں