انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں !
نگران سیٹ کے بارے میں آئین وقانون میں کوئی ابہام نہیں،لیکن نگران حکومت اپنے جانب دارانہ رویئے سے ابہام پیدا کرنے میں کوشاں دکھائی دیتی ہے ،نگران حکومت کاکام غیر جانبدار‘ منصفانہ الیکشن منعقد کرانااور چلے جانا ہے، لیکن یہ نگران حکومت انتخابات کرانے اور جانے کے موڈ میں نظر ہی نہیں آرہی ہے ، اگر کسی دبائو کے تحت عام انتخابات ہو گئے اور اس میں کسی قسم کی جانبداری کا پہلو نظر آیاتو اس کے نتائج بہت برے نکلیں گے ، ملک پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے،
نگران حکومت کے جانبدارانہ رویئے کے باعث مزید انتشار کا شکار ہو جائے گا ۔اس ملک میں نگران سیٹ اپ آنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہو گا ،بلکہ ملکی حالات بھی بہتری کی جانب گامزن ہوں گے ، لیکن صورت حال جوں کی توں ہے، یہاں صرف اقتدار کی صورتیں بدلی ہیں ،
باقی سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے ، اب کچھ ہی دنوں میں اقتدار کی نگرانی کو بھی چالیس روز ہوجائیں گے ،جوکہ حکومتی کارکردگی کو پرکھنے اور جانچنے کی معقول مدت ہے،نگران حکومت کے چالیس روز بھی ویسے ہی ہیں جیسا کہ پی ڈی ایم کے سولہ ماہ رہے ہیں ، اس لیے ہی نگران سیٹ اپ لانے والے ان کے چالیسویں کو اپنی خواہشوں کا چہلم قرار دیے ر ہے ہیں۔اس ملک میں سیاسی قوت سے لے کر مقتدرہ تک سب ہی مصلحتوں میں جکڑے ہیں، یہاں بڑے بڑے دعوئیبہت کیے جاتے ہیں ،مگر ہوتا ہواتاکچھ بھی نہیں ہے، اب آئین کے تحت کہا جارہا ہے کہ چند ماہ صبرو کریں،یہ دور نگرانی پورا ہو ہی جائے گا
اورعوام کے ہاتھ ما سو ائے مہنگائی کے کچھ نہیں آئے گا، عوام کو کل بھی رگڑا لگایاجارا تھا،عوام کو آج بھی مشکلات کی چکی میں پیسا جارہا ہے ، عوام کو رلیف دیا جارہا ہے نہ ہی حق رائے دہی دیا جارہا ہے ، الیکشن کمیشن نے بڑے اصرار پر آئندہ سال جنوری میں عام انتخابات کا عندیہ تو دیے دیا ،لیکن انتخابات کی تاریخ پر راہ فرار تلاش کی جارہی ہے، یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ انتخابات کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور چار ارکان کا عملہ انتخابات کرانے کا ذمے دار ہے، لیکن اگر اس سال کے آخر میں الیکشن کمیشن کے اعلی عہدیدار ناگزیر وجوہات پر مستعفی ہوجاتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیںتو پھر انتخاب کون کرائے گا؟
اس آئے روز کی بڑھتی بے یقینی میں عوام الناس انتخابات سے بے غرض ہوتے جارہے ہیں،عوام کو عام انتخابات سے زیادہ اپنی برھتی مشکلات سے غرض ہے ، یہ عام انتخابات کے حوالے سے بیان بازیایاں سیاست دانوں کے چونچلے ہیں، اہل سیاست ہی انتخابات کے غبارے میں ہوا بھرتے اور نکالتے رہتے ہیں ،جبکہ عوام ظالموں کو کیفر کردار تک دیکھنا اور مہنگائی سے نجات کے طلب گار ہیں، وہ ہر آنے والے حکمران سے نیک تمنائیں قائم کرتے اور پھر ان کی کارکردگی سے مایوس ہو کر رہ جاتے ہیں،
لیکن ہمارے سیاست دان انتخابات کے انعقاد پر شک و شبہے کاشکار ہیں، ان کے خدشات کے پس منظر میں نہ جانے کون سے عوامل ہیں کہ جن کی بنیاد پر سیاسی رہنماء انتخابات کے معاملے پر مشکوک دکھائی دیتے ہیں، لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ عام انتخابات ہر حال میں منعقد ہوں گے، کیونکہ اب انتخابات کے سوا کوئی دوسراچار نہیں رہا ہے، اگر اس بار بھی انتخابات تعطل کاشکار ہوتے ہیں
تو پھر شائد انتخابات نہیں ،کچھ اور ہی ہو گا ، جو کہ کسی کے مفاد میں بھی بہتر نہیں ہے، اس بدلتے حالات کی ہلکی آہٹ صاف سنائی دیے رہی ہے اور اقتدار کی جانب بڑھتے دبے قد موں کی چاپ بھی واضح سنائی دیے رہی ہے۔