اچھے فیصلے قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں !
ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ کا آنا کوئی معمولی بات نہیں رہی ہے،اس تاریخ کے اعلان سے ہی ملک میں تھوڑا بہت استحکام آرہا تھا کہ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پنجاب بار کونسل اور سندھ ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن نے چیف الیکشن کمیشن سکندر سلطان راجا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے،
اس وکلا تنظیموں کے مطالبے کو پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مسترد کردیا ہے، تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتیں بار ہاچیف الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری پر تحفظات کا اظہار ضرور کرتی رہی ہیں، لیکن موجودہ مرحلے پر چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کے مطالبے کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ان سب کا خیال ہے کہ اس وقت چیف الیکشن کمشنر کا استعفیٰ آئینی بحران اور انتخابات کے التوا کا جواز بن سکتا ہے۔ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد پر چھائے خدشات کے بادل چھٹ گئے ہیں
،لیکن آئے روز ایک کے بعد ایک ایسے عوامل سامنے آرہے ہیں کہ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے باوجود انتخابات کے التوا کی کو شش کی جاری ہیں ، ایک طرف عدالتوں میں مختلف وجوہات پر درخوستیں دی جارہی ہیں تودوسری جانب چیف الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ رویئے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جارہا ہے،جوکہ انتخابات کے التوا کا باعث بنے گا ،جبکہ اگر دھاندلی زدہ انتخابات اور انتخابات کے التوا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو انتخابات کے انعقاد کو ہی ترجیح دی جائے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس سارے ہی دور میں چیف الیکشن کمیشن کی کارکردگی انتہائی متنازع رہی ہے اور ان کے جانبدارانہ رویئے کے خلاف آواز بھی اُٹھائی جاتی رہی ہے ، اس مرحلے پر ان کے اوپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ شفاف دھاندلی سے پاک انتخابات کراپائیں گے،اس کے باوجود ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنا ،انتخابات ملتوی کرانے کا ہی باعث بنے گا، انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونے چاہئے ، لیکن بعض قوتیں انتخابات میں تاخیر چاہتی ہیں ،تاکہ آمرانہ نظام کو وہی جواز مل جائے ،جیسا کہ گزشتہ ادوار میں انتخابات کے التوا کے بعد آمرانہ نظام کو جواز ملتا رہا ہے ۔
پاکستان کے سیاسی نظام میں منتخب اداروں نے کبھی مقتدر اداروں پر بالادستی کے قیام کی سنجیدہ جدوجہد کی ہے نہ ہی اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ اس بارے سو چا جائے ، اگر کسی نے اپنے مفاد کیلئے کبھی ایسی کوشش کی بھی ہے تو کا میاب ہی نہیں ہو پائی ہے ، منتخب اداروں کی بالا دستی انتخابی عمل کے تسلسل سے ہی جڑی ہے ، لیکن یہاں بر وقت انتخابات ہو پارہے ہیں نہ ہی انتخابات کا تسلسل بر قرار رکھا جارہا ہے ،
بلکہ انتخابات کے انعقاد کو جان بوجھ کر التو کا شکار بنایا جارہا ہے ، اس کے پیچھے کچھ نادیدہ قوتیں کار فر مارہی ہیں ، یہ ان قوتوں کی ہی کار ستانی ہے کہ الیکشن کے قریب آتے ہی ا لیکشن کمشنرسے ہی مستعفی ہونے کا مظالبہ کیا جانے لگاہے، اگر اس وقت چیف الیکشن کمشنر نے وکلا تنظیموں کے مطالبے کو جواز بنا کر استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا تو یہ ہی سمجھا جائے گا کہ وہ اس منصوبے میں شامل رہے ہیں۔
اس بار عام انتخابات میںلیکشن کمیشن کے ساتھ بیورو کریسی کا بھی بہت بڑا امتحان ہے، الیکشن کمیشن نے جہاں ہر قسم کے دبائو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آزادانہ شفاف بروقت انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے ،وہاں بیوروکریسی نے بھی اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہے ،اس وقت پوری قوم کی نظریںالیکشن کمیشن اوربیوروکریسی پر ہی لگی ہوئی ہیں ،یہ ان سب کیلئے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے کا سنہری موقع ہے،شفاف انتخابات کے حوالے سے پہلے ہی شکوک و شبہات بہت زیادہ پائے جارہے ہیں،
تحریک انصاف الزام لگا رہی ہے کہ جو انتظامی افسر ان اْسے جلسہ کرنے نہیں دے رہے ہیں، وہ آزادانہ شفاف انتخابات کیسے کرائیں گے ، جبکہ وکلاء چیف الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ رویئے کے خلاف ہیں،تاہم چیف الیکشن اور ریٹرننگ افسر بننے کے بعد سے اْن دونوں کی ذمہ داری کی نوعیت بدل گئی ہے،اب وہ ایک جج کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں اور انہوں نے غیر جانبدارانہ فیصلے کرنے ہیں، اْن کے اچھے فیصلے ہی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں ، اگر بْرے فیصلے کریں گے تو تاریخ میں بحیثیت الیکشن کمیشن اور بیورو کریسی کی نگرانی میں منعقد ہونے والے انتخابات ایک سیاہ دھبے کے طور پر نہ صرف موجود رہیں گے، بلکہ ایک سیاہ دھبے کے ہی طور پر یاد بھی کیے جاتے رہیں گے ۔