قومی سلامتی کے دفاع کا عزم ! 41

انسداد دہشت گردی کے نئے عزم کا اعادہ !

انسداد دہشت گردی کے نئے عزم کا اعادہ !

ملک میں جوں جوں انتخابات قر یب آرہے ہیں، دہشت گردی بھی بڑھتی جارہی ہے ،اگرچہ سکیورٹی اداروں نے ماضی میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد سے دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کر دیا تھا، لیکن ایک بار پھر سے بڑھتے دہشتگردی کے واقعات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ایک بار پھر دہشت متحرک ہورہے ہیں ،ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں،ایک بار پھر بیرونی قوتوں کی پشت پناہی، فنڈنگ، مقامی سہولت کاری اور ہمسایہ ریاست میں محفوظ ٹھکانوں کے باعث تخریب کار گروہ اپنے مذموم مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں،انہیں فوری طور پر روکنا ہو گا، اس مر حلے پر ہی کچلنا ہو گا ،سیکورٹی فورسز دہشت گردی کے کاخاتمے کیلئے پر عزم ہے ، اہل سیاست اور قوم کو بھی سیکورٹی فورسز کا ساتھ دینا ہو گا۔
یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اس وقت بد امنی کی صورت حال اتنی سنگین نہیں ہے، جتنا کہ دس سال پہلے ہوتی تھی،اس وقت دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں ،لیکن ان میں پہلے والی شدت ہے نہ ہی پہلے کی طرح آسان مواقع دیئے جا رہے ہیں،اس کے باوجود دہشت گرد اپنی کاروائیاں کرجاتے ہیں،اس کی وجہ سے ایک طرف ملکی معیشت اور دوسری طرف انتخابی عمل متاثر ہو نے کا خطرہ ہے

، اس کی نشاندہی اہل سیاست کے بیانات سے بھی ہورہی ہے ، تاہم نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ دہشتگرد جس قدر بزدلانہ کارروائیاںکرینگے، ان کے خلاف ریاست کے ردعمل میں اتنی ہی شدت آئے گی،جبکہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہیں۔
یہ سکورٹی فورسز کا دہشت گردی کے خلاف عزم کا ہی نتیجہ ہے کہ دہشت گردوں کی لاکھ کوشش کے باوجود دہشت گردی کا دائرہ محدود رہا ہے ، اس کے باوجو خیبر پختونخوا اور بلو چستان کے کچھ علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں، گزشتہ سال کے اختتام پر سکیورٹی حکام کی جاری رپورٹ کے مطابق کے پی میں ٹی ٹی پی کے سب سے زیادہ حملے ہوئے ہیں، اس کے نتیجے میں متعدد جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں

اور کم از کم 280 زخمی ہوئے ہیں،اس سے قبل رپورٹس بتاتی ہیں کہ جنوری 2022 سے نومبر 2022 تک پولیس پر دہشت گرد حملوں کے 151 واقعات ہوئے، ان میں 105 پولیس اہلکار شہید اور 109 زخمی ہوئے ہیں،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ حلقوںکا کہنا ہے کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوری طور پرکارروائی نہ کی گئی تو دوبارہ 2006 سے 2015 کے دوران جیسی صورتحال کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے توملک میںدہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا، انتظامی سطح پر ایک کثیر الجہتی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے،پاکستانی حکام نے 2022 میں مذاکرات کے ذریعے ٹی ٹی پی کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں،اس عمل کی وجہ سے عسکریت پسندوں کو اپنے سابقہ ٹھکانوں میں واپس آنے اور از سر نوسرگرم ہونے کا موقع ملا،اس حکمت عملی پر مقامی آبادی نے سخت ناراضی کا اظہار بھی کیا تھا، سوات، وانا اور دیگر مقامات پر لوگوں نے عوامی مظاہروں میں غیرمعمولی شرکت بھی کی تھی،

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاونٹر ٹیرر ازم جیسے اہم مسائل پر پالیسی سازی معقول نہیں رہی ہے،پاکستان میں کاونٹر ٹیررازم پالیسی کی تشکیل میں دھندلاپن رہا ہے،ہم دہشت گردوں سے کبھی مزاکرات کی باتیں کرتے ہیں تو کبھی سخت رویہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں اور کبھی افغانستان کی طرف دیکھتے رہے ہیں کہ وہ سر حد پار سے در اندازی نہ ہو نے دینے کا اپنا وعدہ پورا کرے، اس ابہام پا لیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھتے رہے ہیں اور بار بار سر حد پار سے دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے رہے ہیں ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ کانٹر ٹیررازم پالیسی میں ابہام کے باوجود پاکستانی قوم اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کو بڑی حد تک شکست دی ہے،اگرقومی سطح پر کچھ غلطیاں ہوئی ہیںتو اس سے دہشت گردوں کو کچھ فائدہ ضرور ہوا، لیکن مجموعی طور پر پاکستان نے دنیا کے کسی بھی ملک سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف ا پنی صلاحیت کا بھر پورمظاہرہ کیا ہے، تاہم ہمیں اپنی کو تاہیوں پر غور فکر کر نا ہو گا ، اپنے کمزور پہلوںپر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی ، دہشت گردی کے خلاف ایک واضح پا لیسی پر عمل پیراہونا ہو گا ، دہشت گردخواہ کوئی بھی ہو ، کسی ملک سے بھی تعلق رکھتا ہو ،

یکساں سلوک روارکھنا ہو گا ، دہشت گرد اور ان کے سہولت کار کسی رعایت کے مستحق ہیںنہ ہی انہیں کوئی رعایت یا معافی ملنی چاہئے ،ہمیں مل کرانسداد دہشت گردی کے نئے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا ، دہشت گرد پاک افواج اورقوم کے عزم کے سامنے زیادہ دیر تک کھڑے نہیں رہ پائیںگے،دہشت گردی کے خلاف جیت بتدریج ریاست پاکستان کے حصے میں آرہی ہے،پا کستان اپنے پختہ عزم کے ذریعے بہت جلد دہشت گردی کا ناسور ہمیشہ کیلئے جڑھ سے اُکھاڑ پھنکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں