Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

“محنت کرنے سے ہر چیز کا حصول آسان ہوجاتا ہے”

“محنت کرنے سے ہر چیز کا حصول آسان ہوجاتا ہے”

۔ نقاش نائطی
۔ +966562677707

ایک عام سی ضرب المثل تھی کہ “آم کے درخت کو آم ہی لگتے ہیں” وہ بھی “آپوس آم کے درخت کو آپوس آم” “لنگڑے آم کے درخت کو لنگڑا آم ہی لگتا ہے” لیکن حضرت انسان نے ایک اور ضرب المثل “محنت کرنے سے ہر چیز کا حصول آسان ہوجاتا ہے” اس ضرب المثل پر عمل پیرا رہتے ہوئے، ایک ہی درخت پر 300 اقسام کے آم اگاتے ہوئے، لکھنؤ ملیح آباد کے ایک مسلمان کاشتکار حاجی کلیم اللہ خان نے،نہ صرف اپنے نام عالمی ریکارڈ قائم کیا ہوا ہے

بلکہ حکومت ھند نے انہیں، ایک ہی درخت پر 300 اقسام کے آم اگانے کا عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے کاشتکاری کی دنیا میں بھارت کا نام روشن کرنے پر،انہیں2008 میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازتے ہوئے ،ان کی عزت افزائی بھی کی ہے۔ 84 سالہ حاجی کلیم اللہ خان کو علاقے کے لوگ ’’آم آدمی” یا “مینگو مین‘‘ بھی کہا کرتے ہیں

کیونکہ انہوں نے آم کے ایک درخت پر بیک وقت 300 الگ الگ اقسام کے آم اُگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔حاجی کلیم اللہ خان بتاتے ہیں کہ سات اقسام کے آم دینے والا ایک درخت وہ 1957 میں اس وقت اُگا چکے تھے جب وہ خود 17 سال کے تھے اور ساتویں جماعت میں فیل ہونے کے بعد، اپنے پشتینی باغ میں آموں کی کاشت سے کل وقتی طور پر وابستہ ہوچکے تھے۔’’بدقسمتی سے وہ درخت سیلاب کی نذر ہوگیا،‘‘

کلیم اللہ خان نے کہاآئندہ تیس سالہ تک آم کی کاشت میں تجربہ اور نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد، 1987 میں انہوں نے ایک بار پھر اپنے لڑکپن کے ادھورے منصوبے کو مکمل کرنے کی ٹھان لی تاہم اب کی بار انہوں نے اپنے پشتینی باغ میں آم کے ایسے درخت کاانتخاب کیا جو 100 سال پرانا اور بہت بڑا تھا۔

وہ الگ الگ اقسام والے آموں کے درختوں کی شاخیں کاٹ کر انہیں قلموں کی شکل دیتے اور اس درخت کی کسی نہ کسی شاخ پر لگا دیتے۔

وہ اوسطاً ہر مہینے اس درخت میں ایک نئی قسم کی قلم کا اضافہ کردیتے؛ اور یوں بالآخر تقریباً پچیس سال میں وہ درخت پر، ایک ہی وقت میں، 300 سے زائد اقسام کے آم دینے کے قابل ہوگیا، جسے بھارت کی ’’لمکا بُک آف ریکارڈز‘‘ میں بھی درج کرلیا گیا۔

آج یہ درخت اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ اس کے سائے تلے 15 افراد بہت آرام سے پکنک منا سکتے ہیں جبکہ اس کی ہزاروں شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔آموں سے اپنے عشق اور آموں کی کاشت میں غیر معمولی مہارت کی بناء پر حاجی کلیم اللہ خان کو ’’آم آدمی”یا مینگو مین‘‘ کا لقب بھی مل چکا ہے۔

بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ کلیم اللہ خان کا یہ کارنامہ صرف نمائشی ہے جس کا کوئی مالی فائدہ نہیں۔ لیکن دیگر افراد کہتے ہیں کہ ہر چیز کا فائدہ پیسے کے ترازو میں تولا نہیں جانا چاہیے۔جب ایک عام سے ساتویں فیل مسلم کاشتکار اپنی لگن محنت سے ایک ہی درخت پر 300 اقسام کے آم اگانے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے تو ہم آپ، اپنی لگن محنت کوشش سےکیا کچھ نہیں کرسکتے ہیں؟ یہ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ 1967 میں 17 سالہ جیشودا بین سے شادی کے بعد، اپنی بیاہتا کم سن بیوی کو بھگوان بھروسے چھوڑ کر گھر سے بھاگ جانے والے، اور خود مہان مودی جی کے، اپنے ایک انٹرویو میں دئیے بیان مطابق، مختلف ریاستوں میں ،آوارہ گھومتے ہوئے، در در بھیک مانگ کر،اسی بھکشا پر ادھیڑ عمری تک آوارہ گھومنے والے،اور 1990 ایڈوانی جی کی رتھ یاترا پر، پہلی بار منظر عام پر آنے والے، مودی جی، جب ایڈوانی جی کی جئے جئے

کار کرتے کرتے، پہلے گجرات سی ایم اور پھر عالم کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے پی ایم بنتے ہوئے، اپنے 10 سالہ مسلم منافرتی سنگھی رام راجیہ میں، ایڈانی امبانی کو آگے کر، 2014 انکے اقتدار میں آنے سے پہلے والے کانگرئسی منموہن سرکار والے سب سے تیز ترقی پزیربھارت کی معشیت کو ہی نہیں، بلکہ 140 کروڑ بھارتیہ عوام کے، سابقہ پچاس سالوں کی بچت تک کو، اپنے مکر و فریب والے، نوٹ بندی جی ایس ٹی نفاذ سے لوٹتے ہوئے، امبانی ایڈانی کو عالم کو تونگر ترین پونجی پتی بناتے ہوئے

، 80 کروڑ دیش کی جنتا کو بھکمری کی کگار پر لا چھوڑتے ہوئے، ایڈانی امبانی کو آگے کر خود جہاں، بے نامی ارب پتی بن چکے ہیں تو آج مہان مودی جی کی وناش کال پالیسئز سے، سنگھی حکومتی فری اناج کے دم پر جینے والے 80 کروڑ مفلس بھارت واسی، اپنے دم خم پر محنت مزدوری کرتے ہوئے، دو وقت کی روٹی کما 140کروڑ دیش وادسیوں کے ہزاروں کروڑ ٹیکس پیسوں کو دیمک کی طرح چاٹنے سے باز کیا نہیں آسکتے ہیں؟
عالم کو اپنی لپیٹ میں لئے،کورونا وبا بعد، اب پورے عالم میں، اپنے بازوئے دم پر کچھ کرنے کا دم خم عام لوگوں میں کم ہوتا جو محسوس ہورہا ہے اور ادھیڑ عمر لوگ، جو محنت مزدوری کو چھوڑ، فری سرکاری راشن پر جینے اور ہزار حیلے بہانوں سے، لوگوں سے بھیک مانگ مانگ کر، جو جینے کے عادی ہو رہے ہیں، انہیں بھیک دئیے نالائق بنائے، دھرتی پر بوجھ بنے، جینے والی اکثریتی انسانیت کو، محنت مزدوری پر لگوانے والی سوچ والی، کانگرئس قیادت والی انڈیا حکومت کو، اقتدار پر لانے کی ضرورت ہے

اور انہیں بے روزگار کئے،خود کے جوانی کے دنوں والے بھیک مانگتے پیشے پر، دیش کی اکثریتی انسانیت کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے، اس سنگھی مہان مودی جی کو، 2024 عوامی ووٹوں سے محروم کئے، انہیں انکے گھر گجرات یا سنگھی گڑھ ناگپور بھیجنے کی اشد ضرورت ہے۔ بصورت دیگر، اگر اب کی 2024 عام انتخاب میں بھی، کسی بھی بہانے سے، اقتدار سے بے دخل نہیں کیا گیا

تو یقینا اگلے پانچ سال تک ، 2014 سے پہلے تک۔سب سے تیز رفتار ترقی پزیر بھارت، بھکمری، فاقہ کشی اور مفلسی میں یقیناً عالم کا وشؤگرو بن جائیگا۔ وما علینا الا البلاغ
*حالیہ دنوں بہار کے ایک ھندو کاشتکار نے ایک درخت پر 12 اقسام کے آم اگانے کی کامیاب کوشش میں مصروف عمل ہیں۔اس کلپ میں انہیں دیکھا جادکتا ہے*

Exit mobile version