یہ نظام کیسے چلے گا !
ملک میں ایک طرف متنازع انتخابی نتائج کے تحت قائم ہونے والی حکومت کی تشکیل کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی مزید شہادتیں بھی سامنے آرہی ہیں،اس حوالے سے نہ صرف پلڈاٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ شفافیت میں انتہائی کمی پائی گئی ہے ،بلکہ امریکی حکومت کے ترجمان نے بھی انتخابات میں بدعنوانی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے
،ایسی کمزور سیاسی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت کیسے سیاسی استحکام لائے گی اور کیسے ملک کے مفادات کا تحفظ کر ے گی ۔اس بات پر عرصہ دراز سے زور دیا جاتا رہا ہے کہ ایک شفاف انتخابی عمل کے ذریعے ہی حکومت بنی چاہئے ، عوام کی مینڈیٹ سے بننے والی حکومت کی ہی ساکھ ہوتی ہے اور وہ عوامی حمایت سے ہی درپیش بحرانوں پر قابو پاسکتی ہے ، تاہم یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسا نہیں کیا جارہا ہے
، اگرعوام کے فیصلے کو نظر انداز کر کے بندکمروں کے ہی فیصلے تھوپے جائیں گے تواس کے خلاف رپورٹ آئیں گی اور اعتراضات بھی اُٹھائے جاتے رہیں گے ،جو کہ جگ ہنسائی کا ہی باعث بنیں گے ، اس کا کو ئی ادراک کررہا ہے نہ ہی سد باب کر نے کی کوشش کررہا ہے ، یہاں پر ہار کو جیت میں بدلنے والوںکا حصول اقتدار ہی مقصد ہے اور وہ اپنے مقصد میں کا میاب ہوتے دکھائی دیے رہے ہیں ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ انتخابات میں ہارنے والے اقتدار میں اور جیتنے والے اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبور ہیں اور الیکشن کمیشن نہ صرف خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ،بلکہ عوامی مینڈیٹ بدلنے میں اپنا بھر پور کردار بھی ادا کررہا ہے ، یہ الیکشن کمیشن کی کار گزارئیوں کاہی کا نتیجہ ہے کہ ملک عدم استحکام کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے ، لیکن کسی کو کوئی فکر لا حق ہے نہ ہی کوئی نوٹس لے رہا ہے ، ہر کوئی مصلحت کی چادر اُو ڑھے انجان بنا ہوا ہے کہ کہیں سارا بوجھ ہی اُٹھانا نہ پڑجائے ، کوئی اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفاد کو تر جیح نہیں دیے رہا ہے ، سارے ہی زبانی کلامی تیر چلا ئے جارہے ہیں اور بھڑکیں مار ے جارہے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنائے جارہے ہیں ۔
عوام جانتے ہیں کہ یہاں کچھ بھی ہو نے والا ہے نہ ہی کچھ بدلنے والا ہے، کیو نکہ جنہوں نے کچھ کر نا ہے وہی ساتھ ملے ہوئے ہیں ،یہ سب کچھ پہلی بار نہیں ہورہا ہے ، اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے ، ساری ہی سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود انتخابی شفافیت یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ کا کردار کبھی قابل قدر رہا ہے
نہ ہی الیکشن کمیشن نے اپنا ذمہ دارانہ کر دار ادا کیا ہے ،ہر انتخابا ت کے بعد دھاندلی کے شور میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے دعوئے کیے جاتے رہے ہیں ، مگر پارلیمان میں ماسوائے شور شرابے میں وقت گزری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جاسکا ہے ، اس بار بھی انتخابی دھاندلی کے معاملے پر وسیع مشاورت کے متعلق کہا جارہاہے، عدالتی کمیشن بنانے اور تحقیقات کرانے بارے کہا جارہا ہے ،لیکن جنہوں نے سب کچھ کرانا ہے ،وہ ایک طرف دھاندلی کی تحقیقات پر مشاورت کررہے ہیں تو دوسری جاناپنے مخالف کی ہی مخصوص نشستیں لے کر اپنی اکثریت بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اس ملک کی سیاسی جماعتوں کی بابت دیکھا گیا ہے کہ اقتدار میں آکر دھاندلی کے بارے جس موقف کا اظہار کرتی ہیں، اپوزیشن میںان کا نکتہ نظر بالکل ہی مختلف ہو جاتا ہے،انتخابی عمل کی غیر شفافیت اور الیکشن کمیشن کی کوتاہی ایک بار کا مسئلہ نہیںہے، ہر انتخاب کا متنازع ہوناہی ملک میں جمہوریت کے متعلق بد گمانی پیدا کر رہا ہے، اس طرح ہر بار ہی اہم اداروں پر الزام تراشیاں کی جاتی ہیں، حالانکہ یہ بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل قانون و آئین کے مطابق سر انجام دے،لیکن وہ اپنا آئینی و قانونی کر دار ادا کر نے کے بجائے کسی دوسرے کے ہی ایجنڈے کی تکمیل میں لگا رہتا ہے ، اس کے باعث ہی ہر بارمتنازع انتخابات کی زد میں متنازع الیکشن کمیشن رہتا ہے ۔
ایک متنازع انتخابی نتائج کے ساتھ ایک متنازع اتحادی حکومت لائی گئی ہے ،لیکن یہ دھاندلی کے سائے میں زیادہ دیر تک چل پائے گی نہ ہی نظام بچا پائے گی، بلکہ اس نظام کو ڈبونے کاہی باعث بنے گی ، نئی حکومت کے لئے اشد ضروری ہے کہ ایک بار تفصیل کے ساتھ انتخابی نتائج اور انتخابی نظام کے آڈٹ کا انتظام کرے
،یہ آڈٹ پارلیمنٹ خود ہی کرے تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ اس پر اُٹھنے والے اعتراضات کا جواب عوام کے نمائندوں سے ہی وصول کیا جا سکے اور اس کا حل باہمی مشاورت سے ہی نکلا جاسکے ، اس ملک کو آگے بڑھانے کے لئے اور اس میں استحکام لانے کیلئے سب سے پہلے نظام کو شفاف بنانے اور پارلیمنٹ کی حرمت بحال کرنے ضرورت ہے، اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر آگے بڑھنا ہو گا ، بصورت دیگرحکومت چلے گی نہ ہی یہ نظام چل پائے گا۔