معافی
تحریر: حنا اقبال
انسان بہت خودغرض ہے معافی بھی اسی شخص سے مانگتا ہے جو عزیز ہو۔
اس شخص سے کبھی معافی نہیں مانگتا جہاں وہ غلط ہو مطلب انسان بھی عجیب ہے دل توڑ کے اتنا پرسکون ہو کے سو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور اس شخص سے بار بار معافی مانگتا رہتا ہےجو اس کے لیے اہم ہو اور سمجھتا ہے کہ خدا ناراض ہو گیا ہلاکہ اگر ہم خدا کی ناراضگی کی وجہ سے معافی مانگے
تو ہم کبھی بھی اتنا خود غرض نہ ہوتے اور اگر انسان اس شخص سے معافی بھی مانگ لئے تو وہ دل سے مخلص ہو کر نہیں مانگتا ہے اسے کوئی اپنا ہی مفاد ہوتا ہے ۔۔ معافی کا مطلب تو دل کاسکون ہوتا ہے۔ لیکن ہم وہ کام کرتے ہی نہیں جس پہ ہمیں سکون ملے۔ ۔
انسان کی نیچیر ہے وہ تب تک معافی نہیں مانگتا جب تک وہ بلکل اپنے مکافات عمل سے نہیں گزرتا اور جیسے ہی اس پہ مکافات عمل آتا ہے وہ ہر انسان سے معافی مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ مطلب انسان اپنی آکڑ تب توڑتا ہے جب اس کے پاس ہر چیز ختم ہو جاتی ہے